انسانی حقوق کا عالمی منانے کا مقصدانسان کے آفاقی حقوق کو بلا تفریق رنگ ونسل مذہب اور زبان تسلیم کرنا ہے، زینت شاہوانی

اتوار 10 دسمبر 2017 22:00

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 10 دسمبر2017ء) انسانی حقوق کا عالمی دن منانے کا مقصد انسان کے آفاقی حقوق کو بلا تفریق رنگ ونسل مذہب اور زبان تسلیم کرنا ہے پاکستان عملی طور پر ان ملکوں میں شامل ہے جس کا انسانی حقوق کی پاسداری کے بارے میں ریکارڈ کوئی بہت زیادہ اچھا نہیں انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے دو اہم مسائل ہیں اول کوئی فرد کسی دوسرے انسان کے حق کی تلفی کرکے اسے نقصان پہنچائے دوئم ریاست حکومت یا اس کا کوئی ادارہ خود لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کی تفریق کو یقین بناتا ہے فرد کے مقابلے میں ریاست یا حکومت کی جانب سے بنیادی انسانی حقوق کی حق تلفی سنگین جرم ہے آج دنیا بھر میں مذہب معاشروں کی جو عالمی درجہ بندی کی جاتی ہے اس میں انسانی حقوق کی کارکردگی کو اہم اصول بنایا جاتاہے بعد اوقات ریاست اور حکومت ایسے قوانین بناتی ہے جو بظاہر تو لوگوں کو تحفظ دینے کیلئے ہوتے ہیں لیکن عملاً اس کا مقصد لوگوں کے بنیادی حقوق کو سلب کرنے سے منسلک ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار بلوچستان نیشنل پارٹی کی مرکزی خواتین سیکرٹری زینت شاہوانی نے اپنی رہائش گاہ پر منعقدہ انسانی حقوق کے عالمی دن کی مناسبت سے کارنر میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں اس وقت دہشت گردی ایک بڑا مسئلہ ہے حکومت یا ریاستی ادارے اس دہشت گردی سے نمٹنا چاہتے ہیں حکومت کے بقول ہمیں غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے لیکن حکومت کا یہ موقف کہ ہمیں دہشت گردی سے نمٹنا ہے اس کیلئے اگر آئین یا بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہے تو اس سے بھی گریز نہیں کیا جائے گا خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتا ہے ایک ایسی ریاست یا حکومت جہاں ہم قانون اور اداروں کی مدد سے اپنے ہی مخالفین یادشمنی کی بنیاد پر انصاف کے نظام کو متاثر کرتے ہیں وہاں اس طرز کے قوانین سیاسی استحصال یا تفریق کے زمرے میں بھی آتے ہیں یہ منطق بجا کہ ہمیں دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے لیکن اس پر کسی نے حکومت کو نہیں روکا وہ ضرور بنائے لیکن اسے آئین اور قانون میں درج بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کی شقوں کی ضمانت بھی دینی ہوگی ۔

حکومت اس بات ک نظر انداز نہ کرے کہ پہلے ہی بلوچستان میں لاپتہ افراد کے بارے میں ریاست اور بلوچستان کے لوگوں میں ایک بڑی بداعتمادی کی فضاء پائی جاتی ہے اب یہ نئی قانون سازی ریاست اور بلوچستان کے مقدمہ کو بھی کمزور کرے مزیدبداعتماد ی کی فضاء قائم کریگی یہ تاثر کہ دہشت گردی سے نمٹنے کا حل ماوائے آئین قانونی ریاستی رٹ میں ہے ، درست رویہ نہیں کیونکہ جو حکومت اس قانون کی آج حمایت کررہی ہے کل یہ اس کے اپنے خلاف بھی استعمال ہوسکتا ہے جب ہم اس اصول پر قائم ہیں کہ ریاست میں کوئی فرد یا ادارہ قانون سے بالاتر نہیں تو حالیہ قانون اپنے ہی اصول کی نفی کرتا ہے ۔

جب آپ ایسی قانون سازی کی حمایت کریں گے جو آئین سے متصادم بھی ہو اور بنیادی انسانی حقوق کے برعکس ہو تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم کس طرز کا عدل پر مبنی نظام لانا چاہتے ہیں سیاسی جماعتوں دانشوروں قانونی ماہرین اور میڈیا سمیت سب کو اس تحفظ پاکستان ترمیمی آرڈی نینس کے نفاذ پر مزاحمت کرنی چاہیے۔ اسی طرح ملک کی اعلیٰ عدالت کو بھی آئین سے متصادم اس اقدام پر یقینا نوٹس لے کر ملک کی آئین قانونی اور جمہوری حکمرانی کے مقدمہ کو برتری دینی چاہیے ۔