’آرٹس اینڈ آئیڈیاز فیسٹیول ‘‘ کے روز کراچی شہر، صنفی تفریق، کاروبار کے مواقع اور ارد وبک شیلف کے موضوع پر منعقدہ سیشنس کی رپورٹ

اتوار 10 دسمبر 2017 20:10

کراچی ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 10 دسمبر2017ء) سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی میں جاری چار روزہ فیسٹیول آف آرٹس اینڈ آئیڈیاز اتوار کو اختتام پذیر ہوگیا۔فیسٹیول کے آخری اور چوتھے روز کنورزیشن سیشن میں خطاب کرتے ہوئے معروف ماہر تعمیرات و منصوبہ بندی عارف حسن نے کہا کہ کراچی میں ا س لئے بہتری نہیںآر ہی ہے کیونکہ کہ کراچی شہر کے معاملات کو مارکیٹ کنٹرول کرتا ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں لاہور کا کنٹرول افسرشاہی اور سیاستدانوں کے پاس ہے، اس لئے وہاں کراچی کی نسبت ترقی نظر آتی ہے۔

کنورسیشن کارنر سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ’’ کراچی کی بطور سندھ کے میگا سٹی ترقی‘‘ کے عنوان پر ہونے والے اس پروگرام میں عارف حسن نے مزید کہا کہ ایمپریس مارکیٹ میں کاروباری افراد کی چھتیس تنظیمیں ہیں ،جن کے تعاون کے بغیر کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اداروں کے بغیر کراچی کی ترقی ممکن نہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ادارے تباہ ہورہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں چاہے مہنگے پراجیکٹس بنائے جائیں، ماس ٹرازٹ بنایا جائے لیکن جب تک ان کے سپورٹنگ منصوبے نہ ہو ں شہر کی بڑی آبادی فوائد سے محروم رہے گی۔ انہوں نے مثال پیش کی کہ شہر میں ماس ٹرانزٹ سے منسلک دیگر ادارے نہیں بنائے گئے تو اس بڑے پراجیکٹ سے شہر کی صرف سات فیصد آبادی استفادہ کر سکے گی، اور ٹریفک کے مسائل جوں کے توں رہیں گے، انہوں نے مزید کہا کہ کراچی کو ورلڈ کلاس شہر بنانے کے بجائے پیادل چلنے والوں کا شہر بنانا ہوگا، شاہراہ فیصل پر ایلیویٹیڈ سڑک بنائی جارہی تھی جس کی ہم نے شدید مخالفت کی، کیونکہ اس سے شہر کی فطری خوبصورتی چھپ جائے گی۔

پاکستان میں ترقی کا منظرنامہ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے وفاقی سیکریٹری ترقی و منصوبہ بندی اور سابقہ کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی نے کہا کہ ملک میں مالی احتساب سے زیادہ انتظامی احتساب کی ضرورت ہے، ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح تو کردیا جاتا ہے لیکن مختصر عرصے کے اندر وہ غیر فعال ہوجاتے ہیں، کراچی میں بھی یہ ہی ہوتا رہا ہے، اس طرح کے منصوبوں میں کراچی کے کئی منصوبے بھی شامل ہیں، جب تک انتظامی احتساب کا عمل شروع نہیں کیا جائے گا تب تک ملک حقیقی معنوں میں ترقی نہیں کرسکتا، انہوں نے کہا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ پاکستان کی ترقی کے لیے انتہائی اہم منصوبہ ہے، کسی بھی ملک میں ترقی کی بنیاد روڈس کی تعمیر ہوتی ہے، اس منصوبے کے ذریعے پاکستان خطے کے دیگر ممالک سے منسلک ہوجائے گا جس سے ملک کی ایکسپورٹ میں خاطرخواہ اضافہ ہوگا،جبکہ اس منصوبے سے ملک کے جی ڈی پی کو 23 فیصد تک بڑھانے میں مدد ملے گی، شعیب صدیقی نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبوں پر زیادہ تعداد میں چینی شہری کام کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہمارا ملک بے تہاشہ معدنی وسائل سے مالامال ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان وسائل کو ملک کی ترقی اور لوگوں کی فلاح کے لیے بہتر طور پر استعمال کیا جائے ، ملک کے نوجوان آگے آئیں اور ملکی ترقی میں اپنا تعمیری کردار ادا کریں۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ماہر تعمیرات یاسمین لاری نے کہا کہ جتنی شہر کی آبادی بڑھی ہے، اس کے مقابلے میں شہر کے مسائل نہیں ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہر میں پینے کے صاف پانی اور سیوریج کا صحیح نظام نہیں ہے۔ اس کے ساتھ درخت کاٹے جارہے ہیں، ٹرانسپورٹ کا بالاخصوص خواتین کیلئے کوئی سہولت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کی قدیمی عمارات بھی خستہ حالت میں ہیں، جن کو کم خرچ پہ بحال کیا جاسکتاہے۔

انہوں نے کہا کہ شہری اپنے محلوں کی سطح پر تنظیمیں بنا کر اس میں خواتین کو شامل کریں اور اپنے محلوں کو خوبصورت بنائیں تو پورا شہر خوبصورت بن جائے گا۔ ایک سوال کے جوان میں ان کا کہنا تھا کراچی کی پرانی عمارتیں پتھر کی بنی ہیں جو گر نہیں سکتیں، ان کی مرمت کرائی جاسکتی ہے۔ بعد ازاں’’پاکستان میں صنفی تفریق ‘‘ کے عنوان سے مذاکرے کا انعقاد کیا گیا جس سے سندھ مدرسة الاسلام یونیورسٹی کی کلچرل اینڈ جینڈر کمیٹی کی اعزازی مشیر مسز شائستہ محمد علی، عورت فاؤنڈیشن کی مہناز رحمان اور معروف اسکالر اور انسانی حقوق کی کارکن خالدہ غوث نے شرکت کی۔

مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے مسز شائستہ محمد علی نے کہا کہ بچے کی پہلی درسگاہ اس کی ماں کی گود ہوتی ہے، کیونکہ تربیت کا دروازہ ماں کے ہاتھ سے کھلتا ہے، مائیں بچے کو بچپن سے صنفی تفریق سے دور رکھیں۔ مہناز رحمان نے کہا کہ ہراسمنٹ کا قانون صرف عورت کو ہی نہیں مرد کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔خالدہ غوث نے کہا کہ خواتین کے تحفظ کے لیے قوانین تو بنائے گئے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کرانے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت کو مضبوط ہی نہیں کرنا لیکن اس کو گراس روٹ تک لے جانا ہے جس سے خواتین کا احترام پیدا ہوگا۔ ’’پاکستان میں نوجوانوں کے لیے کاروبار کے مواقع‘‘ کے موضوع پر منعقدہ مذاکرے میں مقررین نے بزنس ایڈمنسٹریشن میں تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ گریجوئیشن کے بعدملازمت کا انتظار کرنے کے بجائے ذاتی کاروبار شروع کریں۔

کاروبار کرنے کے لیئے پیسے سے زیادہ مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔نوجوانوں کو چاہیئے کہ وہ گریجوئیشن کے بعد مہارت حاصل کرنے کے لیئے متعلقہ انڈسٹری سے استفادہ حاصل کریں۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے سندھ بورڈ آف انوسٹمنٹ کی چیئرپرسن ناہید میمن نے کہا کہ ملک میں کاروبار شروع تو ہوتے ہیں لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر وہ جلدی ختم ہوجاتے ہیں۔

کاروبار شروع کرنے والے لوگوں کوصرف کراچی کی حد تک نہیں سوچنا چاہیئے، انہوں نے کہا کہ ملک میں کاربار کے سرمایہ کاری اور کاروبار کے لیئے بہتر مواقع موجود ہیں، آٹو اسپیئر پارٹس میں نوجوان کاروبار کرسکتے ہیں، خاص طور پر مائیننگ کے شعبے میں سرمایہ کاری و کاروبار کے بہت مواقع موجود ہیں۔ ناہید میمن نے کہا کہ کاروبار کے لیئے نئے آئیڈیاز بھی انتہائی اہم ہیں۔

فیس بک دنیا کی سب سے بڑی میڈیا کمپنی ہے لیکن اس کے پاس اپنا مواد نہیں ہوتا وہ صارفین کے مواد پر انحصار کرتی ہے۔ مذاکرے میں گفتگو کرتے ہوئے میڈی سیو فارما پرائیویٹ لمیٹڈ کے سی ای او رضوان رحیم نے کہاکہ کاروبار شروع کرنے کے لیے ضروری نہیں کہ دفتر اور ملازم ہوں ، ایک اکیلا آدمی بھی معمولی سرمایے سے کاروبار شروع کرسکتا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ بزنس ایڈمنسٹریشن میں تعلیم دینے والے ادارے مقامی انڈسٹری کے اشتراک سے مقامی ماحول کی مناسبت سے طلبہ کی رہنمائی کریںتاکہ گریجوئیشن کے بعد انہیں عملی زندگی میں مشکلات پیش نہ آئیں۔

سندھ مدرسة الاسلام یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹرمحمد علی شیخ نے مختلف سیشنس میں شریک شرکاء کو یادگاری شیلڈز پیش کیں۔ ان تقریبات میں طلباء وطالبات ، ماہرین تعلیم اور دیگر شعبہ جات کے معززین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ فیسٹیول کے موقع پرسندھ مدرسہ یونیورسٹی کے طالب علموں نے مختلف اسٹالز لگائے تھے، جبکہ اس موقع پر تصاویر اور پینٹنگس کے مقابلے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔

اردو بک شیلف کے سیشن میں اردو کے معروف شاعر اور ماہر تعلیم سحر انصاری نے تین اردو کلاسیکل کتابوں مرزا غالب کی ’’دیوان غالب‘‘ قرة العین حیدر کی --’’آگ کا دریا‘‘ اور اشفاق احمد کی ’’زاویہ‘‘کے مختلف فنی اور فکری پہلوں پر گفتگو کرتے ہوئے کہا یہ بات قابل تحسین ہے کہ سندھ مدرسة الاسلام یونیورسٹی نے شاندار تقریب کا اہتمام کیا ہے،سحر انصاری نے کہا حتی کہ غالب کے دور میں محمد ابراہیم ذوق، مومن خان مومن، بہادر شاہ ظفر سمیت کئی دیگر عظیم شعرا موجود تھے لیکن مرزا غالب اس لیے زیادہ مقبول ہوئے کہ ان کا تخیل، فلسفہ حیات اور طرز بیان سب سے نرالا تھا، ان کا مشاہدہ بہت تیز ، فارسی اورقدیم فلاسفی ادب کا مطالعہ بہت تھا، یہی سبب تھا کہ ان کی کچھ شاعری بہت مشکل اور کچھ شاعری بہت ہی آسان ہے۔

سحر انصاری نے قرة العین حیدر کی ناول ’’آگ کا دریا‘‘ پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ناول برصغیر کی ڈھائی ہزار سالوں پر محیط تاریخ پر مبنی ہے، جس میں یہاں آریاؤں کا آنا، ان کی جانب سے سندھ کی مقامی آبادی کو شمال کی طرف دھکیلنے سمیت گنگا اور جمنا کی تاریخ کا ذکر ہے، انہوں نے کہا کہ تاریخ کی کتاب اور تاریخ کے ناول میں فرق اتنا ہے کہ ناول میں انسانی دل دھڑکتا ہے، اس میں انسانی جذبات محسوس ہوتے ہیں جبکہ تاریخ کی کتاب میں محض تاریخ ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اکثر ناول تحقیق کے بعد کی تحریر کیے جاتے ہیں۔ اشفاق احمد کی کتاب زاویہ پر گفتگو کرتے ہوئے سحر انصاری نے کہا اشفاق احمد کی سوچ پر شیخ سعدی کا اثر تھا، جس کی جھلک ان کی تحریروں سے بھی نمایاں طور پر ملتی ہے، انہوں نے کہا’’گڈریا‘‘ اشفاق احمد کا ایک شاہکار افسانہ ہے، جس میں انسان شناسی ہے، اشفاق احمد فکری طور پر تصوف کے قریب تھے، انسان شناسی کا سب سے اہم ذریعہ ادب ہی ہوتا ہے، انہوں نے کہا کہ زاویہ ٹی وی پر اشفاق حسین کی گفتگو پر مشتمل ہے، جس میں انسان شناسی بیان کی گئی ہے، سحر انساری نے طلباء کو مشورہ دیا کہ وہ کتابوں کی طرف آئیں کیونکہ انسانیت کا درس کتابوں میں ہی موجود ہے۔

فیسٹیول کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی شیخ نے کہا کہ فیسٹیول کو کامیابی سے منعقد کرنے میں طالبعلموں کا بہت اہم کردار ہے۔ اس طرح کے پروگرامز مستقبل میں منعقد کئے جائیں گے تاکہ ہمارے طالبعلم اپنی ثقافت اور آرٹ سے روشناس ہوسکیں۔ انہوں نے اس موقع پر فیسٹیول میں حصہ لینے والے طالبعلموں، والنٹیئرز اور آرگنائیزرز کیلئے انعامات کا اعلان بھی کیا۔

متعلقہ عنوان :