سیکیورٹی ایجنسیز پر عائد 10فیصد غیر منصفانہ جی ایس ٹی کا جائزہ لیاجائے،مفسر ملک

جی ایس ٹی پرنظرثانی کروانے کیلئے ایپساوفد کا کے سی سی آئی سے تعاون طلب ،تمام سیکیورٹی ایجنسیز کے لئے ایپسا ممبر شپ لازمی قراردی جائے،میجر(ر)منیراحمد

جمعرات 7 دسمبر 2017 17:11

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 07 دسمبر2017ء)کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ( کے سی سی آئی ) کے صدر مفسر عطا ملک نے سیکیورٹی ایجنسیز کے کاروبار میں حائل دشواریوں کاجائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے چیمبر اور تاجروصنعتکار برادری کی حقیقی نمائندہ ہونے کی حیثیت سے کے سی سی آئی جلد ہی سندھ ریونیو بورڈ( ایس آر بی) کے ساتھ ایک اجلاس منعقد کرنے کے لیے رابطہ کرے گا جس میں سیکیورٹی سروسز پر عائد 10فیصد غیر منصفانہ جنرل سیلز ٹیکس ( جی ایس ٹی ) کا جائزہ لینے کے لیے تفصیلی تبادلہ خیال کیاجائے گا۔

اس امر کا اظہار انہوں نے آل پاکستان سیکیورٹی ایجنسیز ایسوسی ایشن( ایپسا) کے چیئرمین میجر(ر) منیر احمد کی سربراہی میں کراچی چیمبر کا دورہ کرنے والے وفد سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

اس موقع پر کے سی سی آئی کے سینئر نائب صدر عبدالباسط عبدالرزاق، نائب صدر ریحان حنیف، اعزاز جنرل سیکریٹری ایپسا کرنل (ر) توقیرالسلام اور دیگر ممبران کے علاوہ کے سی سی آئی کی منیجنگ کمیٹی کے اراکین بھی موجود تھے۔

مفسر عطا ملک نے کہاکہ سندھ ریونیوبورڈ( ایس آر بی) کو سیکیورٹی ایجنسیز پر 10فیصد غیر منصفانہ جی ایس ٹی کا جائزہ لینا چاہیے۔کے سی سی آئی نے وزیراعلیٰ سندھ کے کراچی چیمبر کے دورے کے موقع پر بھی اس مسئلے پر آواز بلند کی تھی جس پر وزیراعلیٰ سندھ نے چیئرمین ایس آر بی کو متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ فوری تبادلہ خیال کرنے کی ہدایت دی لیکن بدقسمتی سے اب تک نہ تو کوئی اجلاس بلایا گیا اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی پیش رفت سامنے آئی۔

کے سی سی آئی سیکیورٹی ایجنسیز کو کچھ ریلیف فراہم کرنے کے لیے ترجیحی بنیاد پر سنجیدگی سے اس مسئلے پر توجہ دے گا۔اس موقع پرایپسا کے چیئرمین میجر(ر) منیر احمد کہاکہ عوام کی زندگیوں اور ان کی ملکیت کی حفاظت حکومت کی اولین ذمہ داری ہے لیکن جیسا کے یہ زمے داری موئثر طریقے سے نہیں نبھائی جارہی تو ایسی صورت حال میںتاجربرادری کے پاس نجی سیکیورٹی گارڈز کی خدمات حاصل کرنے کے سوا ء کوئی دوسرا راستہ نہیں جس کے نتیجے میں انہیں سیکیورٹی کی مد میں اضافی اخراجات کا سامنا ہے جبکہ سیکیورٹی ایجنسیز پر عائد10فیصد ٖ غیر منصفانہ جی ایس ٹی نے صورتحال کو مزید خراب کردیا۔

انہوں نے سروس چارجز کی بجائے مکمل انوائس ویلیو پر جی ایس ٹی کے نفاذ کو انتہائی غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہاکہ اگر اس ٹیکس کو صرف سروس چارجز پر لاگو کیا جائے تو اس کے نتیجے میں ہی لاگت میں واضع کمی واقع ہوگی۔انہوں نے کہاکہ سیکیورٹی کی خدمات فراہم کرنا ایک مشکل کام ہے باوجود اس کے ایپسا سے منسلک سیکیورٹی ایجنسیز اُمیدوں کے مطابق بہترین خدمات فراہم کرنے کی کوشش کررہی ہیں لیکن یہ بہت بدقسمتی ہے کہ حکومت کے عدم تعاون کی وجہ سے خدمات کی یہ اہم انڈسٹری بری طرح متاثر ہورہی ہے۔

اب چند حکومتی اداروں میںایپسا کو کسی حد تک تسلیم کیا جاتا ہے لیکن مجموعی طور پر ہمیں بری طرح نظر انداز کیاجا رہاہے اور ہمارے ساتھ امتیازی سلوک جاری ہے۔انہوں نے سیکیورٹی سروسز پر غیر منصفانہ جی ایس ٹی کا جائزہ لینے کے لیے متعلقہ حکام کو قائل کرنے کے لیے کے سی سی آئی سے تعاون طلب کرتے ہوئے کہاکہ سندھ میںسیکیورٹی ایجنسیز 10فیصد جی ایس ٹی ادا کرتی ہیں جبکہ پنجاب میں یہ جی ایس ٹی 16فیصد ہے اوردیگر دو صوبوں میں بھی اس کی شرح ڈبل ڈیجٹ ہی ہے جس کو یا تو مکمل طور پر ختم کر دینا چاہیے یا پھر اسے کم کرنا چاہیے تاکہ سیکیورٹی سروسز کی زائد لاگت کو کم کیاجاسکے جس کا بوجھ کلائنٹس کو برداشت کرنا پڑتا ہے جنہیں ریاست کی جانب سے بلا معاوضہ سیکیورٹی ملنی چاہیے۔

میجر ( ر) منیر احمد نے پاکستان بھر میں سیکیورٹی کی خدمات فراہم کرنے والی سیکیورٹی ایجنسیز کو ایپسا کی ممبر شپ حاصل کرنے کو لازمی قرار دینے کے لیے حکام بالا کو قائل کرنے کے لئے بھی تعاون طلب کیا جس کے نتیجے میںخدمات کے معیار کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔قبل ازیں کے سی سی آئی کے صدر مفسر عطا ملک نے وفد کے اراکین کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہاکہ کراچی چیمبر بغیر کسی دشواری کے کاروبار کو چلانے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ایپسا کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔

انہوں نے مختلف ایجنسیز کی جانب سے غیر معیاری سیکیورٹی کی خدمات فراہم کرنے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ لاگت میں اضافے کی وجہ سے سیکیورٹی خدمات کے معیار میں کمی واقع ہورہی ہے۔پاکستان میں سیکیورٹی ایجنسیز کو پہلے ہی مشکلات کا سامنا ہے اوراس قسم کے غیر منصفانہ ٹیکسوں کے نفاذ نے صورتحال کو مزید خراب کردیا ہے۔ایپساکے ممبران نے قانونی اور غیر قانونی سیکیورٹی ایجنسیز کے بارے میں تاجروصنعتکار برادری کو آگاہی فراہم کرنے کے لیے بھی کراچی چیمبر سے تعاون طلب کیا۔

انہوں نے کہاکہ ان دنوں ذاتی گارڈز نیلا یونیفارم پہنے نجی ہتھیار لہراتے نظر آتے ہیں جنہیں کسی بھی صورت سیکیورٹی ایجنسیز کا سیکیورٹی گارڈ تصور نہیں کیاجاسکتا۔یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ ان میں سے اکثریت نجی گارڈز کو انفرادی طور پر رکھا جاتا ہے جو کسی سیکیورٹی ایجنسی کا حصہ نہیں ہوتے لیکن سیکیورٹی ایجنسی کا گارڈ ہونے کا تاثر دیتے ہیں جو حقائق سے بر عکس ہے اور ایسے حالات میں اُس وقت تمام سیکیورٹی ایجنسیز کے بارے میں برا تاثرجاتا ہے جب یہ ذاتی گارڈز جن کا کسی سیکیورٹی ایجنسی سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتاکسی غلط کام میںملوث پائے جاتے ہیں۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہاکہ ذاتی گارڈز اور نجی سیکیورٹی گارڈز کی درجہ بندی اور تفریق انتہائی ضروری ہے تاکہ الجھن سے بچا جاسکے۔ اس حوالے سے ایک منفرد یونیفارم یا کوئی اور شناخت کو متعارف کروانا چاہیے اور اس قسم کے گارڈز کی دو مختلف کیٹگریز کے درمیان تفریق پر سختی سے عمل درآمد کرنا چاہیے۔