افغان امن کونسل کا طالبان کو امن مذاکرات کے لیے کابل یا اپنی پسند کے کسی دوسرے ملک میں اپنا نمائندہ دفتر قائم کر نے کی پیشکش،طالبان نے مسترد کردی

جمعرات 7 دسمبر 2017 01:50

افغان امن کونسل کا طالبان کو امن مذاکرات  کے لیے کابل یا اپنی پسند کے ..
کابل ۔ 6 دسمبر (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 07 دسمبر2017ء) جنگ سے تباہ ملک افغانستان میں امن مذاکرات کی کوششوں سے وابستہ سرکاری امن کونسل نے طالبان کو امن مذاکرات کے آغاز کے لیے کابل یا اپنی پسند کے کسی دوسرے ملک میں اپنا نمائندہ دفتر قائم کر نے کی پیشکش کی ہے، جسے طالبان نے فوری طور پر مسترد کردیا۔ سرکاری سطح پر قائم کی گئی اعلیٰ سطحی امن کونسل کے ایک سینئر رٴْکن نے بدھ کو افغان دارالحکومت میں اخباری نمائندوں کی موجودگی میں اس نئی پیشکش کا اعلان کیا۔

محمد اکرم خپلواک نے کہا ہے کہ بغیر شرائط کے وہ امن عمل میں شامل ہونے پر تیار ہیں یا پھر طالبان جو بھی تجویز پیش کریں گے ہم اٴْس طریقہ کار پر رضامند ہوں گے۔خپلواک نے ’’قطر یا دیگر ملکوں میں یا پاکستان میں‘‘ رہنے والے باغی راہنما جنھیں جلاوطنی میں مشکل حالات کا سامنا ہے سے کہا کہ وہ ’’باعزت‘‘ مکالمے کے لیے، مذاکرات کی میز پر آجائیں، تاکہ افغانوں کو تنازعے کے باعث لاحق مشکلات کو ختم کیا جاسکے ۔

(جاری ہے)

خپلواک نے کہا کہ ’’اگر طالبان دفتر قائم کرنا چاہتے ہیں، یا کسی بھی ملک میں ایسا کرنا پسند کریں گے، اور اٴْنھیں امن بات چیت کو بحال کرنے کے لیے کسی بھی قسم کی سہولیات درکار ہوں، تو افغان حکومت اور اعلیٰ امن کونسل اس سلسلے میں سہولت کار بننے کے لیے تیار ہے‘‘۔ ادھر طالبان کے ترجمان، ذبیح اللہ مجاہد نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ افغانستان میں غیر ملکی موجودگی ہی ’’اصل مسئلہ‘‘ ہے۔

اٴْنھوں نے کہا کہ اٴْن کی حریف ’’امریکی افواج ہیں، جنھوں نے کابل کی حکومت تشکیل دے رکھی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ ہمیں کابل میں دفتر قائم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، چونکہ نصف سے بھی زیادہ افغانستان ہمارے کنٹرول میں ہے اور سارا افغانستان ہی ہمارا دفتر ہے‘‘۔ واضح رہے کہ طالبان نے غیر سرکاری طور پر 2013ء سے قطر میں اپنا خودساختہ ’’سیاسی دفتر‘‘ قائم کر رکھا تھالیکن افغان حکومت نے ابتدا ء ہی سے اس کے قیام کو تسلیم کرنے سے انکار کیے رکھا۔ صدر اشرف غنی نے طویل عرصے سے مشرق وسطیٰ کے ملکوں سے مطالبہ کر رکھا تھا کہ طالبان کی جانے سے افغانستان بھر میں حملوں میں شدت آنے کے بعد، طالبان کے دفتر کو بند کیا جائے۔

متعلقہ عنوان :