عدالتی حکم پر ماڈل ٹائون رپورٹ کو پبلک کردیا گیا‘ رپورٹ کا مقدمہ کے ٹرائل پر کوئی اثر نہیں پڑیگا یہ محض انفارمیشن ہے‘ کیس کا ٹرائل اے ٹی سی میں چل رہاہے‘

وہاں انصاف کے تقاضے پورے ہو رہے ہیں‘رپورٹ میں کسی حکومتی شخصیت یا فرد کو ذمہ ذار نہیں ٹھہرایا گیا‘رپورٹ میں جگہ جگہ اس بات کاذکر ہے کہ پاکستان عوامی تحریک کے ورکرز کی طرف سے مزاحمت کی گئی جو پولیس کے ساتھ تصادم کا باعث بنی صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کی پریس کانفرنس

منگل 5 دسمبر 2017 19:13

عدالتی حکم پر ماڈل ٹائون رپورٹ کو پبلک کردیا گیا‘ رپورٹ کا مقدمہ کے ..
لاہور۔5 دسمبر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 05 دسمبر2017ء) صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے کہاہے کہ عدالت کے حکم پر ماڈل ٹائون رپورٹ کو پبلک کردیا گیا ہے‘ ماڈل ٹائون رپورٹ کا مقدمہ کے ٹرائل یا انویسٹی گیشن پر کوئی اثر نہیں پڑیگا یہ محض ایک انفارمیشن ہے‘ اس کیس کا ٹرائل اے ٹی سی میں چل رہاہے‘ وہاں انصاف کے تقاضے پورے ہو رہے ہیں‘ وہ منگل کے روز پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے‘ اس موقع پر صوبائی وزیر زعیم حسین قادری‘ ترجمان پنجاب حکومت ملک احمد خان بھی موجود تھے‘ صوبائی وزیر قانون نے کہا کہ پنجاب حکومت میرٹ اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتی ہے‘ ماڈل ٹائون رپورٹ میں کسی حکومتی شخصیت یا فرد کو ذمہ ذار نہیں ٹھہرایا گیا‘ اس رپورٹ میں جگہ جگہ اس بات کاذکر ہے کہ پاکستان عوامی تحریک کے ورکرز کی طرف سے مزاحمت کی گئی جو پولیس کے ساتھ تصادم کا باعث بنی جس کے شواہد اور کلپس موجود ہیں‘ انہوں نے کہا کہ علامہ طاہر القادری جن غریبوں اور مظلوموں پر ظلم کا ذکر کر رہے ہیں‘ ان مظلوموں کو پولیس پر حملہ آور ہونے کیلئے کس نے اکسایا اور وہ کون تھا جو ان لوگوں کو پکارتا رہا کہ وہ تصادم کریں‘ انہوں نے کہا کہ شواہد میں یہ بھی بات موجود ہے کہ پاکستان عوامی تحریک کے لوگوں کو اکٹھا کیا گیااور وہ جو لانگ مارچ والوں نے کیا کیونکہ ان کو لاشیں درکار تھیں‘ صوبائی وزیر نے ماڈل ٹائون رپورٹ کو قانون کی نظر میں ڈی فیکٹو قرار دیا‘ انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ میں کوئی ایک لفظ بھی نہیں جو وزیر اعلیٰ پنجاب کو ذمہ دار تصور کرتا ہو‘ اس حوالے سے وزیر اعلیٰ کا بیان حلفی بھی طلب کیا گیا‘ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ مجھ پر الزام ہے کہ میں نے اس سلسلہ میں اجلاس کی صدارت کی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس اجلاس میں میرے علاوہ 16 اور لوگ بھی تھے جس میں صرف بیریئرز ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا‘ اس حوالے سے پولیس کو کوئی خفیہ آرڈر نہیں دیا گیا‘ یہ رپورٹ نامکمل ہونے کی بناء پر شائع نہیں کی گئی‘ ایک سوال پر رانا ثناء اللہ نے کہا کہ رپورٹ میں قانونی طور پر جو کمیاں ہیں ان کی نشاندہی کرنا ہمارا حق ہے‘ انہوں نے کہا کہ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ انکوائری کمیشن نے دوسرے فریقین کی طرف سے کوئی شواہد نہیں لئے اور یہ بھی حیران کن چیز ہے کہ رپورٹ لکھنے کیلئے جائے وقوعہ کادورہ تک نہیں کیا گیا‘ ایک اور سوال کے جواب میں صوبائی وزیر قانون نے کہا کہ مخالفین یہ کہہ رہے تھے کہ رپورٹ میں ایسی چیزیں ہیں جو سامنے آجائیں گی تو بہت کچھ ہو جائے گا لیکن یہ سب پروپیگنڈہ ہے‘ یہ رپورٹ صرف انتشار سے بچنے کیلئے پبلک نہ کی گئی اور اب پنجاب حکومت نے اس کو پبلک کرکے اس کو چیلنج نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے‘انہوں نے واضح کیا گیا کہ رپورٹ میں اثر و رسوخ والی کوئی بات نہیں‘ یہ رپورٹ ہمیں نہیں کسی اور کو مشکل میں ڈالے گی‘ انہوں نے کہا کہ چونکہ اس رپورٹ کا مقدمہ کے ٹرائل یا انویسٹی گیشن سے کوئی تعلق نہیں‘ اس لئے یہ صرف مخالفین کی تقریروں اور بحث و مباحثہ کیلئے استعمال ہو سکتی ہے‘ تاہم ان تقاریر کا دلیل کے ساتھ بھرپور جواب دیاجائیگا‘ رانا ثناء اللہ نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ اور بھی کئی انکوائری کمیشنز کی رپورٹس موجود ہیں جن کو پبلک ہونا چاہئے۔