آرمی چیف نے امریکی وزیر دفاع کو باور کرایا کہ ڈو مور کی آواز وں سے دنیا یہ سمجھتی ہے کہ شاید پاکستان کچھ کر نہیں رہا یا کچھ کرنا نہیں چاہتا، پاکستان نے اپنے حصے سے زیادہ کام کیا ، اب افغانستان کو اپنے حصے کا کام کرنا ہے،افغانستان کے مسائل کا ذمہ دار پاکستان نہیں، آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان سے دہشتگردوں کی مدد کی حمایت کا جو دعوی کیا جاتا ہے وہ ان لوگوں سے ان کو مدد ہو سکتی ہے جو افغان مہاجرین میں مل کر رہتے ہیں ، ان کو ڈھونڈنا مشکل ہے ، اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ افغان مہاجرین کی وطن واپسی ہونی چاہیے، آرمی چیف نے ملاقات میں جیمز میٹس کو بتا یاکہ افغانستان بھارت کے زیر اثر ہے ، ا س کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کی نجی ٹی وی سے گفتگو

پیر 4 دسمبر 2017 23:40

آرمی چیف نے امریکی وزیر دفاع کو باور کرایا کہ  ڈو مور کی آواز وں سے ..
راولپنڈی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 04 دسمبر2017ء) پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے کہاہے کہ آرمی چیف نے امریکی وزیر دفاع کو ملاقات میں باور کرایا کہ جب بھی ڈو مور کی آوازیں آتی ہیں تو دنیا یہ سمجھتی ہے کہ شاید پاکستان کچھ کر نہیں رہا یا کچھ کرنا نہیں چاہتا ، پاکستان کی جو صلاحیت ہے دہشتگردی کے خلاف اس سے بڑھ کر ہم نے کام کیا ہے ، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنے حصے کا کام کر لیا ہے اب افغانستان کو اپنے حصے کا کام کرنا ہے ،افغانستان کے مسائل کا ذمہ دار پاکستان نہیں، آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان سے دہشتگردوں کی مدد کی حمایت کا جو دعوی کیا جاتا ہے وہ ان لوگوں سے ان کو مدد ہو سکتی ہے جو افغان مہاجرین میں مل کر رہتے ہیں ، ان کو ڈھونڈنا مشکل ہے ، اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ افغان مہاجرین کی وطن واپسی ہونی چاہیے، افغانستان بھارت کے زیر اثر ہے اور پاکستان کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے،ملاقات میں اتفاق کیا گیا کہ پاک امریکہ دونوں طرف کے تحفظات کو دور کیا جائے گا ۔

(جاری ہے)

وہ پیر کو نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کر رہے تھے ۔ میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ امریکی وزیر دفاع سے آرمی چیف کی جی ایچ کیو میں 2 گھنٹے سے زائد ملاقات ہوئی جس میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی موجود تھے ۔ آرمی چیف نے جیمز میٹس کو باور کرایا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کی ایک لمبی تاریخ ہے جس میں دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے ۔ اس کی تائید جیمز میٹس نے بھی کی ۔

اس موقع پر آرمی چیف نے کہا کہ جب بھی ڈو مور کی آوازیں آتی ہیں تو دنیا یہ سمجھتی ہے کہ شاید پاکستان کچھ کر نہیں رہا یا کچھ کرنا نہیں چاہتا ۔ پاکستان کی جو صلاحیت ہے دہشتگردی کے خلاف اس سے بڑھ کر ہم نے کام کیا ہے ۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنے حصے کا کام کر لیا ہے اب افغانستان کو اپنے حصے کا کام کرنا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آرمی چیف نے امریکی وزیر دفاع کو باور کروایا کہ افغانستان کے مسائل کا ذمہ دار پاکستان نہیں ہے ہم نے پاکستان کے علاقے صاف کر لیے ہیں ۔

امریکی وزیر دفاع کہا کہ افغانستان میں دھماکے ہوں تو وہ الزام لگاتے ہیں کہ حملہ آور پاکستان سے آئے تھے جس پر آرمی چیف نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اب دہشتگردوں کی کوئی محفوظ پناہ گاہیں نہیں ہیں ۔ پاکستان میں 2.7 ملین افغان مہاجرین جو کہ 37 سال سے پاکستان میں رہتے ہیں 1.5 ملین رجسٹرڈ ہیں جو کیمپس میں رہتے ہیں اور بقیہ رجسٹرڈ نہیں ہیں ۔

ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ وزیر دفاع جیمز میٹس سے افغانستان میں ٹی ٹی پی کے سربراہ ملا فضل اللہ کے متعلق کہا گیا کہ اس کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوئی وہ لوگ پاکستان میں دہشتگردی کے ذمہ دار ہیں ۔ افغانستان سے دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ ملاقات میں آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان سے دہشتگردوں کی مدد کی حمایت کا جو دعوی کیا جاتا ہے وہ ان لوگوں سے ان کو مدد ہو سکتی ہے جو افغان مہاجرین میں مل کر رہتے ہیں ۔

ان کو ڈھونڈنا مشکل ہے ۔ اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ افغان مہاجرین کی وطن واپسی ہونی چاہیے ۔ جب یہ سب چلے جائیں گے تو پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان سے دہشتگردوں کی مدد ہو رہی ہے یا نہیں ۔ آرمی چیف نے کہا کہ ہم بارڈر پر بارڈ بھی اسی لیے لگا رہے ہیں تاکہ بارڈر کا کوئی غیر قانونی استعمال نہ ہو سکے ۔ ملاقات میں آرمی چیف نے کہا کہ افغانستان بھارت کے زیر اثر ہے اور پاکستان کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے ۔

ملاقات میں اتفاق کیا گیا کہ پاک امریکہ دونوں طرف کے تحفظات کو دور کیا جائے گا ۔ میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ مل بیٹھ کر بات چیت ہمیشہ اچھی رہتی ہے ۔ میرے جائزے کے مطابق آج کی ملاقات کے مثبت نتائج ہونگے ۔ امریکی حکام افغان امن کے لئے پاکستان کا کردار چاہتے ہیں آرمی چیف نے بھی کہا کہ افغان امن پاکستان سے زیادہ کسی ملک کے حق میں نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاک امریکہ تعلقات میں بہتری کی بہت امید ہے ۔