سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں دہشتگردی کے خلاف قومی بیانیہ تیار کیا جائے ،

علما ، دانشور اور سیاسی و سماجی امور کے ماہرین اس حوالے سے کردار ادا کریں ، دہشتگردی کے خلاف فکری یکسوئی کے لیے قوم کا متفقہ بیانیہ ضروری ہے،حضرت محمد نے اپنے اخلاص ، انسانوں سے بے لوث محبت اور پاکیزگیِ کردار سے جہالت کے اندھیروں میں ڈوبے انسانوں کو دینِ حق کی جانب متوجہ کیا اور ایک ایسا معاشرہ قائم کیا جس میں ایک دوسرے کا احترام اور محبت تھی، ہم انہی اصولوں پر عمل کر کے مو جود ہ مشکلات سے نکال سکتے ہیں صدر مملکت ممنون حسین کا بین الاقوامی سیرت النبیؐ کانفرنس سے خطاب

ہفتہ 2 دسمبر 2017 18:57

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں دہشتگردی کے خلاف قومی بیانیہ ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 02 دسمبر2017ء) صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں دہشتگردی کے خلاف قومی بیانیہ تیار کیا جائے اور اس کی تشکیل میں علما ، دانشور اور سیاسی و سماجی امور کے ماہرین کردار ادا کریں۔ دہشتگردی کے خلاف فکری یکسوئی کے لیے قوم کا متفقہ بیانیہ ضروری ہے۔حضرت محمد نے اپنے اخلاص ، انسانوں سے بے لوث محبت اور پاکیزگیِ کردار سے جہالت کے اندھیروں میں ڈوبے انسانوں کو دینِ حق کی جانب متوجہ کیا اور ایک ایسا معاشرہ قائم کیا جس میں ایک دوسرے کا احترام اور محبت تھی، ہم انہی اصولوں پر عمل کر کے مو جود ہ مشکلات سے نکال سکتے ہیں۔

انہوں نے یہ بات اسلام آباد میں انٹرنیشنل سیرت کانفرنس کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہی جس میں ملکی اور بین الاقوامی علما ء اور مشائخ کے علاوہ کرغزستان کے گرینڈ مفتی نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

اس موقع پر وفاقی وزیر مذہبی امورسردارمحمد یوسف نے بھی خطاب کیا۔صدر مملکت نے کہا کہ اللہ کا کروڑاہاں شکر ہے کہ جس نے اپنے بے پناہ لطف و کرم سے حضور علیہ الصلوٰوالسلام کا امتی بنا کر ہماری دنیا و آخرت کو سنوارنے کا ذریعہ مہیا کیا۔

صدر مملکت نے کہا کہ نبیِ رحمت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تاریخ عالم کی واحد شخصیت ہیں جن کی زندگی کا ہر ایک واقعہ نہایت درست طور پرمحفوظ ہے اوراس سے زندگی کے ہر معاملے میں رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ ہر مسلمان ،خاص طور پر وہ لوگ جن کے سپرد اولادِآدم کے معاملات کیے گئے ہوں، قرآن حکیم اورسیرت پاک کا مسلسل مطالعہ کرتے رہا کریں تاکہ اپنے عہد کے مسائل سے نمٹنے کے لیے انھیں ہمیشہ درست رہنمائی میسر آتی رہے۔

یہ صر ف سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا اعجاز ہے کہ دنیا کا ہر فرد انفرادی طور پر اورمعاشرہ اجتماعی طورپراپنے مخصوص مسائل کے تناظر میں اس سے بالکل درست رہنمائی حاصل کرسکتا ہے کیونکہ قرآنِ حکیم کاہر ایک لفظ جس طرح لوحِ محفوظ اور قلبِ انسانی میں محفوظ ہے، اسی طرح اس کی عملی صورت سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نقش ہے۔صدر مملکت نے کہا کہ سیرت کی ابتدائی کتب سے لے کر موجودہ عہدتک لکھی جانے والی تمام کتابوں میں رہنماوں کی اس معاملے میں رہنمائی موجود ہے اور انہی اصولوں پر عمل پیرا ہونے سے ہی مسائل کا حل نکلتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ آج کے یوم سعید کومیں یوم تذکیر سمجھتا ہوں تاکہ اس مبارک دن کی برکت سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لافانی تعلیمات کا علم حاصل کرکے ان پرسچے دل کے ساتھ عمل کرنے کا عہد دہرایا جاسکے۔صدر ممنون حسین نے کہا کہ شدت پسندی ناسور ہے جو قومی ترقی و استحکام کے لیے خطرہ ہے۔ آج کی دنیا مختلف نوعیت کے پیچیدہ مسائل کا شکار ہے جس کی وجوہات مختلف معاشروں کے اندازِ فکر ، نفسیات اور تاریخی پس منظر میں تلاش کی جا سکتی ہیں۔

یہی عوامل ہیں جن کی وجہ سے اس کرہ ارض کے مختلف حصے باہم دست و گریباں ہیں یا ان کے درمیان کسی نہ کسی سطح پر آویزش کے آثار پائے جاتے ہیں۔ ہما را خطہ بھی اس بے چینی سے محفوظ نہیں رہ سکا جس کے اثرات ہمیں اپنی سرحدوں کے باہر بھی دکھائی دیتے ہیں اور سرحدوں کے اندر بھی۔ اس طرح کے حالات میں بالغ نظر قومیں اور ان کی قیادت درپیش چیلنجوں کا علمی، تہذیبی، معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی پہلوؤں سے خالصتاً للہیت اور اخلاص کے ساتھ جائزہ لے کر راہِ عمل کا تعین کرتی ہیں۔

عہدِرسالت سے قبل دنیا بے شمار پیچیدہ مسائل کا شکار تھی جس کے سبب بنی نوعِ انسان تاریخ کے بدترین جبرتلے دبی ہوئی تھی۔ انسان نے اپنے ہی جیسے انسانوں کے حقوق غصب کر رکھے تھے ، ظلم عام ہو چکا تھا اورکمزور قومیں طاقتور اقوام کے دباؤ میں رہا کرتی تھیں۔ ان حالات میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت پیش کی تو لوگ عرب و عجم سے ان کی طرف کھنچے چلے آئے۔

اس کا بنیادی سبب وہ غیر معمولی اخلاص اور اللہ کے بندوں کے ساتھ بے لوث محبت تھی جس کی کشش نے بنی نوعِ انسان کو خاتم الانبیاء کے گرد جمع کر دیا تھاکیونکہ لوگ کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھ رہے تھے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں اخلاص ومحبت کے علاوہ دوسرا اہم ترین پہلو روح عصر یعنی اپنے عہد کے داخلی اور خارجی معاملات کی نہ صرف بہترین آگاہی پائی جاتی ہے بلکہ وہ ان مسائل کا جو حل تجویز کرتے ہیں، وہ بھی کسی قسم کے ذاتی، گروہی یا نسلی مفاد سے پاک اور اللہ کی مخلوق کی صرف اور محض بھلائی کے لیے ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خوبی انھیں رحمت اللعالمین کے ایسے بلند مرتبے پر فائز کرتی ہے ، تاریخِ انسانی میں جس کی مثال نہیں ملتی۔صدر مملکت نے کہا کہ آقائے نامدار، تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمدکے بعد معاشرے سے لا یعنی رسومات کی بیخ کنی ہوئی اور اللہ کے بندوں کو دین کی حقیقی روح کے مطابق ایک ایسے نظام پر جمع کر دیا گیا جس کے تحت خیر خواہی کی روایت پختہ ہوئی۔

ہرمرد و زن پر علم کا حصول لازم کر دیا گیا، عدلِ اجتماعی کو فروغ ملااور ارتکازِ دولت کی حوصلہ شکنی سے اس قبائلی معاشرے میں خوشحالی کی ایسی لہر پیدا ہوئی جس پر آج بھی رشک کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ ایسے انقلابی اقدامات تھے جن کے ذریعے پرانا گلاسڑا نظام دم توڑ گیا اوراس کی جگہ ایک نئے عادلانہ اور منصفانہ نظام نے لے لی۔ قیادت کا یہی معیار ہے جسے اختیار کر کے دنیا کو اِس عہد میں بھی امن و آشتی، ترقی و خوشحالی میسّر آسکتی ہے۔

صدر ممنون حسین نے کہا کہ دنیا پیچیدہ مسائل سے دوچار ہے جس کا واحد حل اسوہ حسنہ میں پوشیدہ ہے۔ انقلاب نبوی سے پرانا گلا سڑا نظام دم توڑ گیا اور عادلانہ نظام قائم ہوا۔ صدر مملکت نے کہا کہ عہد رسالت مآب اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی پر نظر ڈالیے، حیاتِ مبارکہ کے یہ پہلوفوراً ہی اپنی جانب متوجہ کر لیتے ہیں، مثلاً قلب و نظر کی پاکیزگی،اپنے مقصد حیات پر غیر متزلزل یقین اور اس کے لیے مخلصانہ جدو جہد۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے یہی وہ تین بنیادی اوصاف ہیں جن میں آج کے پیچیدہ ترین مسائل کا حل موجودہے۔ اس لیے ہماری یہ پہلی ذمہ داری ہے کہ حضورعلیہ الصلوٰة والسلام کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ذاتی اغراض ، مصالح اور مفادات سے بلند ہو کرخالصتاً اللہ کی رضا کے لیے اس کے بندوں سے محبت اور خیر خواہی کا معاملہ رکھیں، عظیم مقاصد کی خاطر اپنا حق چھوڑنا بھی پڑے تو اس کی پرواہ نہ کریں۔

اخلاص پر مبنی یہ طرزِ عمل ہمارے کام میں برکت پیدا کرے گا۔ اسی کے نتیجے میں بہتری آئے گی اور معاشرہ جہالت کے اندھیروں سے نکل کر علم کی روشنی اور غربت و ناداری کی کھائی سے اٹھ کر خوشحالی کی منزل تک جا پہنچے گا ،نیکی پھلے پھولے گی اور برائی کا سدِ باب ہو گا۔صدر مملکت نے کہا کہ سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ایسی عظیم ذمہ داریاں ایسے لوگ ہی اٹھا سکتے ہیں جن کے سینے میں علم کا نور ہو ،دل میں اخلاص کا بے پایاں جذبہ ہو، انسانوں سے بے لوث محبت ان کا شیوہ ہو اور وہ پاکیزگیِ کردار کے ساتھ ساتھ قوتِ عمل سے بھی مالا مال ہوں۔

انھوں نے کہا کہ یہاں یہ حقیقت بھی ضرور پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ اسلام ان خوبیوں کا تقاضا صرف اسی شخص سے نہیں کرتاجس کے کاندھوں پر اقتدار کی گراں بار ذمہ داری ڈالی گئی ہو بلکہ اس کا مخاطب ہر وہ شخص ہے جو دینی، تہذیبی یاعلمی شعبوں سمیت کسی بھی میدان میں رہنمائی کے منصب پر فائض ہو۔قائد کے لیے ضروری ہے کہ وہ کھلے دل ودماغ سے معاشرے اوردنیا کو سمجھنے کی کوشش کرے اور معروضی حالات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے معاشرے کی ترقی و خوشحالی کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دے۔

اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے سے منفی رجحانات کی بیخ کنی کر کے اخلاق کے اعلیٰ ترین اصولوں کی روشنی میں صحت مند رجحانات کو فروغ دے۔ ا س تگ و دو کے نتیجے میں جب کوئی معاشرہ کامیابی کی راہ پر گامزن ہو جائے تو اس کے بعد ضروری ہے کہ قوم کا ہر فرد اور ہر طبقہ اس معاملے میں مثبت طرزِ عمل اختیار کرے۔ یہی طرزِ عمل قوم کے اجتماعی ذہن، پسند ناپسند اور افکار و نظریات کی درست عکاسی کر کے قوموں کی برادری میں اسے نمایاں مقام عطا کرتا ہے۔

صدر مملکت نے کہا کہ مجھے اللہ تبارک و تعالیٰ کے لطف و کرم سے پوری امید ہے کہ نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ طریقوں پر چل کرہم دنیا وآخرت دونوں جہانوں میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔اس موقع پر صدر مملکت نے وفاقی وزارتِ مذہبی امور کو بین الاقوامی سیرت کانفرنس کے انعقاد، اس موضوع پر قلم اٹھانے والے مصنفین اورخوش نصیب انعام یافتگان کو مبارک باد د ی۔

متعلقہ عنوان :