ہیلی کاپٹر دھواں بھر جانے کے باوجود عملے کو چھوڑ کر باہر نہیں گئے

پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی بہادری کا ایک واقعہ

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین ہفتہ 2 دسمبر 2017 11:46

ہیلی کاپٹر  دھواں بھر جانے کے باوجود عملے کو چھوڑ کر باہر نہیں گئے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 02 دسمبر 2017ء) : پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف نے اپنے زمانے میں بہادی کی کئی مثالیں قائم کیں ، یہی وجہ تھی کہ عوام میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور انہوں نے قوم کا دل جیت لیا۔ جنرل (ر) راحیل شریف بلا شبہ ایک بہادر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور اسی وجہ سے بہادری اور دلیری ان کے خون میں دوڑتی ہے۔

ان کے ماموں میجر عزیز بھٹی شہید نے بھارت کے ساتھ جنگ میں ایسی شجاعت کا مظاہرہ کیا کہ خود دشمن بھی ان کی تعریف کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ان کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف شہید نے بھی دشمن کے مورچوں میں جا کر بہادری کی مثالیں رقم کیں۔ اس کے بعد جنرل (ر) راحیل شریف نے بطور آرمی چیف آف پاکستان کمان سنبھالی اور دشمنوں سے لڑنے کے ساتھ ساتھ ملک سے دہشتگردی کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کیے جنہیں دنیا بھر میں سراہا گیا۔

(جاری ہے)

راحیل شریف کی عوام میں مقبولیت بھی کسی سے ڈھکی چھُپی نہیں تھی ، ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے حق میں وفاقی دارالحکومت میں بینرز تک آویزاں کر دئے گئےاور قوم ان کی مدت ملازمت میں توسیع کا مطالبہ کرنے لگی۔ معروف کالم نگار ضیا شاہد نے اپنے کالم میں اس بہادر سپوت کی بہادری کا ایک قصہ سناتے ہوئے کہا کہ راحیل شریف 1981ء میں گلگت میں بریگیڈئیر ہیڈ کوارٹر میں بطور جی 3 تعینات تھے ۔

اور راولپنڈی سے گلگت کا سفر بذریعہ بس طے کرنے میں چوبیس گھنٹوں سے زائد درکار ہوتے تھے۔ موسمی حالات کی وجہ سے پی آئی اے کے فوکر طیاروں کی آمدورفت بند ہوتی تو فوجی افسر کسی آتے جاتے ہیلی کاپٹر کا انتظار کرتے۔ جی ایچ کیو سے ایک جنرل ہیلی کاپٹر پر گلگت آئے تو واپسی پر عملے اور مسافروں کے علاوہ دو فوجی جوان افسروں کو بھی ہیلی کاپٹر میں جگہ مل گئی۔

پیوما ہیلی کاپٹر گلگت سے فضا میں بلند ہوا تو پتن سے پہلے فنی خرابی پیدا ہو گئی۔ فنی خرابی پیدا ہوتے ہی پائلٹ نے ہیلی کاپٹر کو شاہراہ قراقرم پر اُتار لیا۔ ہیلی کاپٹر کا دروازہ کھُلتے ہی سب نے چھلانگیں لگا کر بھاگنے کو ترجیح دی لیکن عقبی نشست پر بیٹھے دو جوانوں میں سے ایک نے باہر نکل کر محفوظ مقام پر جانے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ ساتھ موجود مضبوط کاٹھی کے افسر نے بازو پکڑ لیا اور پنجابی میں کہا '' لالے کتھے نس رہیاں ایں'' (بھائی کہاں بھاگ رہے ہو؟) جس پر جونئیر افسر نے جواب میں کہا کہ کاک پٹ میں دھواں بھر رہا ہے جو کسی بھی وقت آگ کا باعث بن سکتا ہے ۔

جونئیر افسر کی بات سن کر سینئیر افسر نے کہا کہ '' عملے نوں چھڈ کے کس طرح جاواں گے؟'' (عملے کو چھوڑ کر کس طرح جاسکتے ہیں؟) سینئیر افسر کی بات سن کر جونئیر افسر شرمندہ ہو گیا۔ کچھ فاصلے پر موجود جنرل صاحب ا ور ہیلی کاپٹر میں موجود دیگر مسافر شور مچا رہے تھے کہ جلدی باہر نکلیں لیکن ہیلی کاپٹر میں موجود افسر ٹس سے مس نہ ہوا اور عملے کے ساتھ اندر ہی رہا ، ہیلی کاپٹر کے وائر لیس سیٹ کی انٹینا تار کے شعلہ پکڑنے سے اُٹھنے والا دھواں متبادل نظام کے فعال ہوتے ہی بُجھ گیا اور ہیلی کاپٹر دوبارہ سفر کے لیے تیار ہو گیا۔ اپنے کالم میں انہوں نے لکھا کہ اس سینئیر نوجوان افسر کا نام ''راحیل شریف'' تھا جنہوں نے عملے کو چھوڑ کر باہر نکلنے سے انکار کر دیا تھا۔