حکومت پی آئی اے کی بحالی کے لیے اب تک 161ارب روپے دے چکی ہے لیکن وہ دن بدن خسارے کا شکار ہے، نجکاری کا مطلب نوکریوں سے نکالنا نہیں بلکہ ان کو محفوظ ہاتھوںمیں دے کر زیادہ فائدہ مند بنانا ہے،

پاکستان اسٹیل مل نے قیام کے ابتدائی 17سال منافع دیا، اس کے بعد آج تک خسارے میں ہی جارہی ہے وفاقی وزیرنجکار ی دانیال عزیز کی قومی اسمبلی کی قومی کمیٹی برائے نجکاری میں بریفنگ پوری دنیا میں نجکاری کی جارہی ہے، ہماری بھی وہی منزل ہے، لیکن جو ملازم ادارے کو دس بیس سال دے چکا ہو ان ملازمین کا کیسے تحفظ کیا جائے گا،ہمارے پاس پہلے ہی ملازمتیں نہیں ہیں،رکن کمیٹی عثمان بادینی حکومت کی سرپرستی میں چلنے والے اداروں کی پوری صنعتیں ہی تباہ ہوگئی، بتایا جائے کہ گزشتہ کن کن اداروں میں بھرتیاں کی گئی،پی آئی اے سٹیل مل وغیر میں سیاسی بھرتیوں کی وجہ سے اداروے تباہ ہوگے ، مائزہ حمید

بدھ 29 نومبر 2017 19:44

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 29 نومبر2017ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نجکاری کے اجلاس میں ارکان حکومت کی نجکاری پالیسی پر برس پڑے۔ وفاقی وزیرنجکار ی دانیال عزیز نے کمیٹی کو بتایا کہ حکومت پی آئی اے کی بحالی کے لیے اب تک 161ارب روپے دے چکی ہے لیکن پی آئی اے کا خسارہ دن بدن بڑھ رہا ہے، نجکاری کا مطلب نوکریوں سے نکالنا نہیں بلکہ ان کو محفوظ ہاتھوںمیں دے کر زیادہ فائدہ مند بنانا ہے، پاکستان اسٹیل مل نے قیام کے ابتدائی 17سال منافع دیا، اس کے بعد آج تک خسارے میں ہی جارہی ہے۔

تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کااجلاس چیئرمین کمیٹی سید عمران احمد شاہ کی سربراہی میں ہوا، اجلاس میں سردار عاشق حسین گوپانگ ، جسٹس ریٹائر افتخار احمد،ملک عزیر،مائزہ حمید،منزہ حسن،ڈاکٹر عمران خٹک، انجینئر عثمان خٹک ، وفاقی وزیر نجکاری دانیال عزیز کے علاوہ نجکاری کے اعلیٰ حکام نے بھی شرکت کی، وفاقی وزیر دانیال عزیز نے کہا کہ قومی اداروں کی نجکاری کا مقصد ان اداروں کی فروخت ہے جو مسلسل خسارے میں جا رہے ہیں۔

(جاری ہے)

ماضی کی حکومتیں بھی ان اداروں پر اربوں روپے جھونکے مگر وہ اپنے پائوں پر کھڑے نہیں ہوسکے،اسی رقم سے سکول ،کالج، ہسپتالیں کھل سکتی تھی،لیکن کسی نے اس پر توجہ نہیں دی۔انہوں نے کہا اس وقت 70اداروں کی نجکاری کرنا مقصود ہے،جن میں سے 42ادارے ترجیحی بنیادوں پر فروخت کے لیے پیش کیے جائیں گے۔ان اداروں کی فروخت سے قبل اس میں کام کرنے والے ملازمین کی ملازمتوں کا تحفظ سرفہرست رکھا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب تک یو بی ایل ، پی پی ایل، اے بی ایل ،ایچ بی ایل،اور این پی سی سی، کی فروخت سے 172.87بلین کی رقم موصول ہوگی،دانیال عزیز نے کہا کہ ہماری کوشش تھی کہ پی آئی اے کی نجکاری سے قبل اسے اپنے پائوں پر کھڑا کرکے فروخت کیا جائے، لیکن سینیٹ کی جانب سے کہا گیا کہ 61فیصد اثاثے حکومت اپنے پاس رکھے،اس پروجیکٹ پر کوئی سرمایہ کاری کیوں کرے گا جو ڈوب رہاہوں، ڈوبتے ہوئے اداروں کی بحالی کے لیے حکومت نے ایک ٹریلین روپے مقامی قرضہ لیا ہوا ہے، جن میں سے وہ بھی ہیں جو بند پڑے ہیں، اگر وہی سرمایہ ہم نے چلتے ہوئے کاروبار میں لگایا ہوتا تو ہم کہیں کے پہنچ چکے ہوتے۔

انہوں نے کہا کہ نجکاری کا مقصد نوکری سے نکالنا نہیں ہوتا پی ٹی سی ایل اور بینکس حکومت کی نسبت نجی شعبے میں زیادہ منافے میں جار ہے ہیں۔اور پرائیویٹ سیکٹر میں ملازمتوں کی شرح بھی بڑھی ہے۔پاکستان کے 20کروڑ عوام کا کیا قصور ہے جو ان اداروں کی وجہ سے مفت میں اپنے سر پر قرضہ چڑا رہے ہیں۔ حکومتی اداروںمیں چلنے والے کہئی ادارے بند ہوچکے ہیں ،جس کی وجہ سے لوگ گھرمیں بے روزگار بیھٹے ہیں، سٹیل ملزنے ابتدا کے 17 سال منافہ دیا۔

اس کے بعد آج تک خسارے میں رہی،آنے والے اجلاس میں سٹیل مل اور پی آئی اے کے بارے میں آگاہ کروں گا،رکن کمیٹی عثمان بادینی نے کہا کہ پوری دنیا میں نجکاری کی جارہی ہے، ہماری بھی وہی منزل ہے، لیکن جو ملازم ادارے کو دس بیس سال دے چکا ہو ان ملازمین کا کیسے تحفظ کیا جائے گا۔ہمارے پاس پہلے ہی ملازمتیں نہیں ہیں، جب کہ نجکاری میں پہلا کام یہی ہوتا ہے کہ بندوں کا نکالا جائے۔

رکن قومی چوہدری افتخار نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کے حالیہ نجکاری میں شفافیت کو مدنظر رکھا گیا۔اور گولڈن شیک کے ذریعے ملازمین کا تحفظ کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ کیمیکل کا ایک ادارے نے 43سالوں میں صرف 80لاکھ روپے منافہ دیا جبکہ اس میں سات سو لوگوں کو بھرتی کیا گیا،بعد میں خسارے کی وجہ سے اسے بند کرنا پڑا ،رکن کمیٹی عمران خٹک نے کہا کہ ہمیں وہ لسٹیں فراہم کی جائیں جن میں بتایا جائے کہ کتنے ادارے منافے اور کتنے نقصان میںجارہے ہیں۔

سردار عاشق گوپانگ نے کہا کہ حکومت کا کام مینجمنٹ کا ہوتا ہے کاروبار کا نہیں۔نجکاری کا جب پروسس ہوتا ہے تو بڑا خوبصورت ہوتا ہے، لیکن بعد میں عمل درآمد کے وقت لوگ پھر جاتے ہیں لیکن ملازمین کے حقوق کا تحفظ نہیں ہوتا ، کرنل ریٹائر غلام رسول نے کہا کہ سٹیل مل کروڑوں اربوں روپے منافہ دیتی رہی،معلوم کیا جائے کہ اس وقت کون سے انتظامیہ تھی اور خسارے کے وقت کون لوگ تھے،اس کی فروخت سے قبل اس کے اثاثے دیکھے جائیں،اربوں روپے کی تو صرف زمین ہے۔

اگر مل کو ٹھیکے پر دے دیا جائے تو اس سے نہ صرف قومی اثاثے کی بچت ہوگی نہ کہ آئندہ بھی فائدہ مند ہوگی۔رکن کمیٹی منزہ حسن نے کہا کہ سٹیل مل کیوں فائدے میں جاتے جاتے نقصان میں چلی گئی پی آئی اے کب فائدے میں اور کب نقصان میں گئی اگر نیب ایف آئی اے وغیر ہ کی کارکردگی بری ہوگی تو کیا اس کی بھی نجکاری کردی جائے گی۔ادارے ناکام نہیں ہیں،بلکہ حکومت ناکام ہوئی،جس ادارے کی نجکاری کرنا ہوتی ہے حکومت اس کو جان بوجھ کر برباد کر دیتی ہے،اب تک کیے گئے اداروں کی نجکاری سے عوام کو کیا فائدہ ہوا ایک ہزار بجلی کے بل سے نو سو روپے سرچارج کی مد میں وصول کئے جاتے ہیں۔

چیئرمین کمیٹی پیر عمران احمدنے کہا کہ وزارت نجکاری کے پاس کون سا طریقہ کار ہے جس سے معلوم ہو کہ کون سے ادارے منافہ اور کون سے نقصان میں جارہے ہیں۔رکن کمیٹی مائزہ حمید نے کہا کہ حکومت کی سرپرستی میں چلنے والے اداروں کی پوری صنعتیں ہی تباہ ہوگئی۔ بتایا جائے کہ گزشتہ کن کن اداروں میں بھرتیاں کی گئی۔پی آئی اے سٹیل مل وغیر میں سیاسی بھرتیوں کی وجہ سے اداروے تباہ ہوگیئے۔