گورنر سندھ نے پینے کے پانی کے حوالہ سے کراچی انٹرنیشنل واٹر کانفرنس میں غیرذمہ دارنہ بیان دیا،رضاہارون

سندھ بھر کے عوام بالعموم اور کراچی سمیت شہری علاقوں کو بالخصوص پینے کا صاف پانی جیسی بنیادی سہولت مہیا نہیں،رہنما پی ایس پی

جمعہ 24 نومبر 2017 18:58

گورنر سندھ نے پینے کے پانی کے حوالہ سے کراچی انٹرنیشنل واٹر کانفرنس ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 نومبر2017ء) پی ایس پی کے سیکریٹری جنرل رضا ہارون نے گورنر سندھ کے اس بیان پر شدید حیرت اور افسوس کا اظہار کیا ہے جس میں گورنر نے کراچی انٹرنیشنل واٹر کانفرنس میں بطور مہمان خصوصی کہا کہ پینے کا پانی مہیا کرنا ان کی ترجیحات میں شامل نہیں بلکہ ان کے خیال میں دہشت گردی، تجارت اور توانائی پینے کے صاف پانی سے زیادہ ترجیحی مسائل ہیں۔

رضا ہارون نے کہا کہ بحیثیت صوبائی گورنر محمد زبیر صاحب کی اوولین ذمہ داری سندھ اور بالخصوص کراچی کے عوامی مسائل کو متعلقہ فورمز پر اجاگر کرنا ہے لیکن انتہائی دکھ اور افسوس کی بات ہے پینے کے پانی کے حوالہ سے فورم پرانہوں نے عوامی مسائل اور بنیادی حقوق و انسانی ضروریات کے حوالہ سے غیرذمہ دارنہ بیان دے۔

(جاری ہے)

پینے کے پانی کی قومی ترجیحات میں اوولین حیثیت ہے اود عوامی ر زندگی کی اہم ترین ضرورت ہے۔

۔سندھ بھر کے عوام بالعموم اور کراچی سمیت شہری علاقوں کو بالخصوص پینے کا صاف پانی جیسی بنیادی سہولت مہیا نہیں۔ واٹر کمیشن کی حالیہ رپورٹ اور سپریم کورٹ کی کارروائی اس سنگین معاملہ کی طرف توجہ دلا رہی ہے کہ 13اضلاع میں پینے کا صاف پانی انسانوں کے استعمال کیلئے مناسب نہیں۔ اس لئے فوری طور پر ایسے عملی اقدامات کیئے جائیں کہ شہریوں کو پینے کا صاف پانی مہیا ہو سکے۔

ہنگامی بنیادوںپر کراچی K-4منصوبہ کے فیز 1 کے ساتھ ساتھ فیز 2 کا بھی فی الفور آغاز کر دیا جائے اور کراچی کیلئے 1200 کیوسک پانی کا کوٹہ اگلے 10 برسوں کیلئے مختص کر دیا جائے۔ اس کے علاوہ فیز 3 کے تحت مختص کئے گئے 130 + 130 ملین گیلن پانی کی سپلائی کے کام پر بھی مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے آغاز کر دیا جائے۔S-3 پراجیکٹ کراچی شہر کی ضرورت ہے لہذا اس کی بڑھتی ہوئے لاگت پر انکوائری کروا کر اسے کم کیا جائے اور اس کو ہنگامی بنیادوں پر مکمل کیا جائے۔

انتہائی دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ پینے کا صاف پانی نہ ملنے اور غذا کی کمی کے باعث 5 برس اور اس سیکم عمر کے بچے stunting اور wastingجیسی کیفیت کا شکار ہیں۔ ایک محتاط اندازیکے مطابق ملک میں ایسے بچوں کی تعداد ایک کروڑ تک ہے او اس کا بڑا حصہ سندھ اور خصوصا تھر کے علاقہ سے تعلق رکھتا ہے۔ورلڈ بنک اور قومی ادارے بھی اس حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔

ان بچوں کی نش و نما، ان کا خیال رکھنیاور ایسی کیفیات کی مستقبل میں روک تھام کیلئے ایمرجنسی لگا کر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ کراچی شہر سے غیرقانونی ہائیڈرینٹس اور غیرقانونی پانی فراہمی کی لائنوں کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس پر خصوصی توجہ دی جائے۔ رضاہارون نے کراچی انٹرنیشل واٹر کانفرنس میں گورنر سندھ کے بیان کو غیرسنجیدہ اور کراچی سمیت سندھ بھر کے شہریوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف قرار دیا خصوصا ایک ایسے فورم پر جہاں وہ اپنے عہدے کی حیثیت میں سندھ کے پانی کا مقدمہ خوش اصلوبی کے ساتھ لڑ سکتے تھے۔

لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ سندھ کا گورنر ہوتے ہوئے انہوں نے اس فورم سے لا تعلق اشوز پر بات چیت کی اور اپنی سیاسی جماعت کی نمائندگی کرتے ہوئے پارٹی پروجیکشن اور پارٹی مؤقف بیان کیا۔ایسا لگتا ہے کہ یا تو گورنر سندھ کو بنیادی مسائل سے آگاہی نہیں ہے یا وہ ان مسائل پر بات کرنے سے کترا رہے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مستقبل میں گورنر سندھ اس طرح کے فورمز پر اپنی پارٹی اور وفاقی حکومت کی مارکیٹنگ کرنے کے بجائے سندھ کے عوام کے حقوق پر گفتگو فرمائیں گے۔