شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور میں جاری عالمی کانفرنس اختتام پذیر ہوگئی

جمعہ 24 نومبر 2017 17:28

سکھر ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 نومبر2017ء) شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور کے شعبہ بزنس ایڈمنسٹریشن کے زیرِ اہتمام اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے تعاون سے بزنس اور مینجمنٹ : مستقبل کی طرف سفر کے عنوان پر دو روزہ عالمی کانفرنس اپنے اختتام کو پہنچی۔ کانفرنس کے اختتامی سیشن کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر پروین شاہ نے کی جبکہ جسٹس (ریٹائرڈ) سید علی اسلم جعفری مہمان خصوصی تھے۔

ڈاکٹر سید مدد علی شاہ وائیس چانسلر شہید بینظیر بھٹو اسکل ڈیولپمنٹ یونیورسٹی خیرپور ، پروفیسر ڈاکٹر نور احمد شیخ پرووائیس چانسلر مین کیمپس، پروفیسر ڈاکٹر سید نور شاہ بخاری ڈین فیکلٹی آف مینجمنٹ سائنسز اور پروفیسر ڈاکٹر نعمت اللہ لغاری اس موقع پر اعزازی مہمان تھے۔

(جاری ہے)

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر پروین شاہ نے کہا کہ مجھے نہایت خوشی ہے کہ ملائیشیا ، فرانس، برطانیہ اور چین اور پاکستان بھر کے نامور محققین ہماری یونیورسٹی تشریف لائے اور کانفرنس میں اپنے تحقیقی مقالے پیش کیئے۔

ڈاکٹر پروین شاہ نے کہا کہ بین الاقوامی کانفرنسوں کے انعقاد سے ہمیں معروف قومی و بین الاقوامی شہرت یافتہ محققین کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کا موقع ملتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کانفرنس میں محققین نے اپنے بہترین اور نتیجہ خیز مقالے پیش کیئے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ان مقالوں سے ہمارے اساتذہ، محققین، طلبہ و طالبات نے بہت کچھ سیکھا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ بزنس اور مینجمنٹ ایک بہترین موضوع ہے۔ آج کل کے کاروباری دور میں مینجمنٹ کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ جسٹس (ریٹائرڈ) سید علی اسلم جعفری نے کہا کہ شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور کا قیام یہاں کے لوگوں کا ایک خواب تھا جو چند دہائیوں قبل 1976میں پورا ہوا۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی کانفرنس تدریس کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں کو ملک کے مختلف مسائل پر اپنی تجاویز اور حل پیش کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کانفرنس کے دوران پاک چین اقتصادی راہداری پر بھی گفتگو ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک ملک کی ترقی کیلئے اہم ثابت ہوگی۔ چین ہمارا قابل قدر اور ہمدرد دوست ہے۔ ہمیں امید ہے کہ وہ سی پیک سے ملک میں اسی طرح ترقی آئے گی جس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی کے قیام سے ترقی آئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی مسائل کے باوجود برطانوی سامراج نے برصغیر کے انفراسٹرکچر کو بہتر کیا۔

انہوں نے ریلوے لائن، نہری نظام ، ٹیلی گراف کا نظام اور بیراج بنائے جن میں سکھر بیراج اور لینس ڈائون پل شامل ہیں۔ مغل بادشاہوں اور ان کے جاں نشینوں نے عوام کیلئے کوئی ترقیاتی منصوبے شروع نہیں کیئے انہوں نے صرف اور صرف حکمرانی کی اور عوام کی بنیادی ضروریات پر کوئی توجہ نہ دی۔ پروفیسر ڈاکٹر ارم رانی سربراہ شعبہ بزنس ایڈمنسٹریشن نے خطاب میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان، بین الاقوامی مندوبین اور کانفرنس میں تعاون کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا۔

اس کانفرنس میں برطانیہ، فرانس، ملائیشیا،سعودی عرب اور پاکستان بھر کے محققین نے اپنے تحقیقی مقالے پیش کیئے۔ پروفیسر ڈاکٹر رخسانہ کلیم، ڈاکٹر سیما خالد، ڈاکٹر محمد ریاض احمد نے بھی اس موقع پر خطاب کیا۔ اختتامی تقریب میں پروفیسر شاہ محمد لہرانی، ڈاکٹر امانت علی جلبانی،ڈاکٹر سید اسد رضا عابدی، ڈاکٹر غلام علی ملاح، ڈاکٹر تاج محمد لاشاری،ڈاکٹر چندن لعل، ڈاکٹر مینہوں خان ، اساتذہ، محققین، طلبہ و طالبات نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ اختتامی سیشن میں نظامت کے فرائض محمد حسن شیخ اور پارس نیاز خاصخیلی نے سرانجام دیئے۔