موبائل کمپنیوں کی طرف سے دیئے گئے فرنچائزڈ مراکز کو سم کارڈفروخت کے مخصوص ہدف کی پابندی ختم کی جائے، قائمہ کمیٹی انفارمیشن ٹیکنالوجی

پی ٹی اے نے خلاف ورزیوں پر کیا کارروائی کی، خود کار نظام ہونا چاہیے،زائد بلنگ کی تحقیقات کرانی چاہیے،کمیٹی

جمعرات 23 نومبر 2017 20:28

موبائل کمپنیوں کی طرف سے دیئے گئے فرنچائزڈ مراکز کو سم کارڈفروخت کے ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 نومبر2017ء) سینیٹ قائمہ کمیٹی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے چیئرمین سینیٹر شاہی سید نے پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں منعقد ہونے والے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ہدایت دی کہ موبائل کمپنیوں کی طرف سے دیئے گئے فرنچائزڈ مراکز کو سم کارڈفروخت کے مخصوص ہدف کی پابندی ختم کی جائے۔ اور کہا کہ غریبوں ، ان پڑھوں اور گھریلو خواتین ملازمین کے شناختی کارڈ ز پر سمیں جاری کی جارہی ہیں ۔

جو قومی سلامتی کیلئے خطرنا ک ہیں۔ اے پی ایس سکول میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے والی سم بیواہ خاتون کی تھی۔ کمپنیاں اپنا کاروبار بڑھانے کے لیے جس فرنچائز مرکز کو بار بار تعریفی سرٹیفیکٹ جاری کرتی ہیں ، اگر ہدف پورا نہ ہوتو لائسنس منسوخ کردیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

ایک خاص حد تک زبردستی سم فروختگی ختم کی جائے۔ سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ پی ٹی اے نے خلاف ورزیوں پر کیا کارروائی کی۔

قانون میں شق ہونی چاہیے کہ کارروائی کااختیارکیسے ہے۔ اجلاس میں رومنگ چارجز ، اوور بلنگ اور کال کے ایک منٹس سے کم دورانیہ پر پورے چارجز ، جی ایس ٹی کٹوتی پر سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ خود کار نظام ہونا چاہیے ۔ زائد بلنگ کی تحقیقات کرانی چاہیے ۔ اضافی رقم کہا ں جارہی ہے۔ سینیٹر تاج آفریدی نے کہا کہ ایف بی آر نے کمیٹی کی ہدایت پر کام شروع کیا ہے۔

وصولیاں ملک اور عوام کے فائدے میں ہے۔ لیکن ریگولیٹرز نے اپنی بہتر کارکردگی نہیں دکھائی۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کمیٹی کیطرف سے معاملہ اٹھانے پر ایف بی آر کو کمپنیوں تک رسائی مل گئی ہے۔ پی ٹی اے حکام نے بتایا کہ پچھلے دنوں صارفین کی سہولت کے لیے اخبارات میں اشتہارات جاری کردیا گیا ہے۔ مختلف شہروں کا کئی دفع سروے کیا گیا ہے ۔ابھی تک کسی کمپنی کو جرمانہ نہیں کیا گیا ہے۔

خلاف ورزی پر شوکاز نوٹس اور سماعت کے بعد 35کروڑ تک جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔ وفاقی وزیر انوشہ رحمان نے کہا کہ موبائل کمپنیاں نجی طور پر ٹھیکے دیتی ہیں ۔ ریگولیٹری میکنزم موجود نہیں ۔ کمپنیاں کاروبار میں آزاد ہیں۔ حکومت صرف پالیسی پر سوال جواب کرسکتی ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ حکومت کی نگرانی ہونی چاہیے۔ معاملے کا حل چاہتے ہیں ۔ کاروبار پر بھی حکومت نگرانی کرے اور فرنچائز کا بھی تحفظ ہونا چاہیے۔

سینیٹرشبلی فراز نے کہا کہ ذمہ داری موبائل کمپنی پر بھی ہونی چاہیے۔ تاکہ غلط سم فروخت کرنے کا کام نہ ہوسکے۔ سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ غلط استعمال ہونے والی سم پر متعلقہ کمپنی کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔ وفاقی وزیر انوشہ رحمان نے کہا کہ قائمہ کمیٹی اور حکومت نے ملکر جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے خدمات انجام دیں ہیں۔جلد ہی 100افراد کی آبادی کے گاؤں تک 3جی ٹیکنالوجی پہنچ جائے گی۔

فائیو جی سپیکٹرم بھی لایاجارہا ہے۔ جس سے پہلے اس پر بحث کی ضرورت ہے۔ سینیٹر اعظم سواتی کی طرف سے نجی کمپنی اور سی ڈی اے کے الحاق سے ای سروس منصوبے میں بے ضابطگیوں پر ایف آئی اے حکام نے آگاہ کیا کہ چار افراد کے خلاف ایف آئی آر درج ہے۔ ملزمان ضمانت پر ہیں ۔ تحقیقات جاری ہیں۔ غلط ادائیگیاں کی گئیں اور سسٹم بھی نہیں لگایا گیا ۔ محرک سینیٹر نے کہا کہ کتنے لوگ گرفتار ہوئے ، ذمہ داری کس پر ڈالی گئی ۔

سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ سی ڈی اے کیساتھ کی گئی خط و کتابت کے بارے میں اگلے اجلاس میں معلومات فراہم کی جائے۔ سی ڈی اے کے ذمہ داران کو بھی طلب کیا جائے ۔ وفاقی وزیر انوشہ رحمان نے کہا کہ ایف آئی اے نے ابھی تک کوئی سرکاری ملازم گرفتار نہیںکیا ۔ حیران کن ہے کہ ہارڈ ویئر موجود نہیں ، کسی کو ہاتھ نہیں لگایا گیا۔ نجی کمپنی کو ہراساں کیا جارہا ہے۔

سرکاری افسران کا تحفظ طریقہ کار بن گیا ہے۔سی ڈی اے کے کن افسران کو کیوں تحفظ دیا جارہا ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ حقائق تک پہنچنا چاہتے ہیں ۔ سی ڈی اے کو بھی بلوائیں گے۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ معاملہ ایسے حل کیا جائے ذمہ داران کو سزا ملے اور کسی کے خلاف ثبوت نہیں تو مقدمہ واپس لیا جائے۔ سینیٹر تاج آفرید ی نے کہا کہ کمیٹی ہدایت دے کہ نجی فرم کے ذمہ داران کو معاملہ حل ہونے تک ہراساں نہ کیا جائے۔ اجلاس میں سینیٹرز رحمان ملک ، تاج آفریدی ، نجمہ حمید ، شبلی فراز کے علاوہ وفاقی وزیر انوشہ رحمان ، سیکرٹری وزارت ایف آئی اے اور پی ٹی اے حکام نے شرکت کی۔

متعلقہ عنوان :