دھرنا سے شہریوں کے بنیادی حقوق متاثر ہورہے ہیں‘راستے روکنے کی اجازت اسلام دیتا ہے نہ قانون-سپیکرپر گالیاں دینا کون سا اسلام ہے؟سپریم کورٹ نے خفیہ اداروں کی رپورٹس مسترد کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر آئی بی اور آئی ایس آئی کے سینئر افسران کو طلب کرلیا

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 23 نومبر 2017 12:39

دھرنا سے شہریوں کے بنیادی حقوق متاثر ہورہے ہیں‘راستے روکنے کی اجازت ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔23نومبر۔2017ء) جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ کیا عدالتیں بند ہو گئی ہیں ؟ کل کوئی اور مسئلہ ہوگا تو کیا پھر شہر بند ہو جائیں گے؟سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت میں اٹارنی جنرل اشتر اوصاف عدالت میں پیش ہوئے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ لوگوں نے قرآن پاک پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے۔

فیض آباد کا دھرنا اسلام آباد اور راولپنڈی کو ملانے والے فیض آباد انٹرچینج پر18ویںروز بھی جاری ہے ، راستے بند ہونے کے باعث دفتر، روزگار اور تعلیمی ادارے جانے والے افراد پریشان کا شکار ہیں۔فیض آباد دھرنے سے متعلق وزارت داخلہ اور وزارت دفاع نے جوابات عدالت میں پیش کردیے ہیں۔فیض آباد دھرنے کے معاملے پرسپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کی سماعت میں جسٹس فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ جب ریاست ختم ہوگی توفیصلے سڑکوں پرہوں گے۔

(جاری ہے)

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اسلام میں کہیں ایسانہیں لکھا۔جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ توالٹا چورکوتوال کو ڈانٹے والی بات ہوگئی،لوگوں کوتکلیف ہورہی ہے،ایک حوالہ دےدیں کہ راستہ بند کردیا جائے۔آپ کو اسلام نہیں پتاکیا؟پاکستان کو دلائل کی بنیاد پر بنایا گیا، جب دلیل کی بنیادہی ختم ہوجائے،ڈنڈے کے زور پرصحیح بات اچھی نہیں لگتی۔دشمنوں کے لیے بڑا آسان ہے کہیں آگ لگادے اور ہم آپس میں لڑتے رہیں،اپنی شہرت کے لیے سب ہورہاہے تاکہ نام آجائے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مذاکرات کے لیے مشائخ کو شامل کیا گیا۔جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ آپ نے پرچے کتنے کاٹے ہیں؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 18کیسز درج کیے ،169لوگ گرفتار ہیں،چہلم حضرت امام حسینؓ کا وقت تھاجب وہ وہاں آکر بیٹھے،ہم نہیں چاہتے کہ خون خرابا ہو۔جسٹس فائزعیسیٰ نے کہا کہ دھرنےوالوں کوسہولیات بھی فراہم نہ کی جائیں،سمجھ نہیں آرہا یہ ملک کیسے چلے گا،کل ایسا کرتے ہیں مقدمہ سڑک پر لے جاتے ہیں،ہم نہیں چاہتے کہ ان پرگولیاں برسائی جائیں۔

سماعت کے دوران جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب کیا آپ نے رپورٹ کا جائزہ لیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ حکومت سمیت احتجاج والے بنیادی نکتہ مس کر رہے ہیں، کیا اسلام میں کوئی ڈنڈاہے، کیا قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنا چھوڑ دیا ہے، اختلاف ہوتا ہے لیکن کیا عدالتیں بند ہو گئی ہیں، کل کو کوئی اور اپنے موقف منوانے کے لیے راستے بند کر دے گا، حضورﷺ نے فرمایا کسی پر مسکرانا صدقہ ہے مگر مجھے مسکراتی شخصیات نظر نہیں آتیں، گالی گلوچ کی زبان نظر آتی ہے، کیا معاشرہ ایسے چل سکتا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سب سے غلطی ہوتی ہے، مجھ سے جو غلطی ہو اس کا اعتراف کرتا ہوں، کوئی غیر شرعی بات ہے تو شرعی عدالت موجود ہے، کیا اسلام میں دو رائے ہو سکتی ہیں، کنٹینر کا خرچہ بھی عوام برداشت کر رہے ہیں جب کہ ایجنسیوں پر اتنا پیسہ خرچ ہوتا ہے، ان کا کردار کیا ہے، سمجھ نہیں آ رہا کیا کریں اسلام امن سے پھیلا ہے ڈنڈے سے نہیں۔

اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ معاشرے اور ذہن کو ڈنڈے سے نہیں بدل سکتے جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اتحاد، ایمان، تنظیم کہیں نظر نہیں آ تا، جس کو مرضی گالی دے دو، اگر یہ اسلامی باتیں ہیں تو مجھے قائل کریں، پاکستان دلائل دے کر بنا، ڈنڈے کے زور پر اچھی بات بھی اچھی نہیں لگتی اور دین میں کوئی جبر نہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ دشمنوں کے لیے کام بہت آسان ہو گیا، وہ ہمارے گھر میں آگ لگائیں گے، کتنے دن سے لوگوں کو تکلیف ہو رہی ہے، جب ریاست ختم ہو جائے گی تو قتل سڑکوں پر ہوں گے، ہم تو تشدد کرنے کا نہیں کہیں گے، آرٹیکل 5 کو ہم نے نظر انداز کر دیا ہے، اگر آرٹیکل 5 کی پابندی نہیں کرنی تو پاکستان کی شہریت چھوڑ دیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ دھرنے میں موبائل فون چل رہے ہیں،عوام کے ٹیکس کا پیسہ دھرنے پر لگ رہا ہے، دھرنے کے باعث عدالتی نظام خراب ہو گیا، وکیل اور سائلین عدالت نہیں پہنچ رہے، دھرنے والی جماعت نے الیکشن بھی لڑا، اس نام سے سیاسی جماعت رجسٹر کیسے ہوئی جبکہ حکومت کا پلان آف ایکشن کیا ہے، دھرنے والوں کو کیا حکومت چائے پیش کرتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کوشش ہے معاملہ تشدد کی طرف نہ جائے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ریمارکس دیے کہ اسلام کی عظمت پر سمجھوتا نہیں ہو گا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ آج پیش رفت ہونے کا امکان ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ گولیاں نہ برسائیں لیکن ان کی سہولیات کو بند کر دیں، دھرنے کے علاقے کو کارڈن آف کریں،17 دن سے یہ لوگ کھا پی کہاں سے رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آس پاس کے لوگ کھانا فراہم کر رہے ہیں جب کہ دھرنے میں اسلحہ سے لیس لوگ موجود ہیں، ربیع الاول میں کوئی ایسی چیز نہیں چاہتے جو صورتحال کو خراب کرے، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ 169لوگوں کو گرفتار کیا اور 18مقدمات درج ہوئے جبکہ راستہ بند ہونے کے باعث ایک بچہ وفات پا گیا، جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ بچے کا وفات پانا معمولی بات نہیں، ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، دھرنے والوں کو یہ بات سمجھ آجاتی تو وہ توبہ کرتے اورچلے جاتے، ایمبولینس کو راستہ دینے سے ہماری انا بڑی ہے،جس کا بچہ مر گیا اس کے دل پر کیا گذر رہی ہوگی، پارلیمان اور عدلیہ اپنا کام اور علماءاپنا کام کریں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ سوشل میڈیا کو بلاک کرنے کیلئے حکومت نے کیا اقدامات کیے جس پر اٹارنی جنرل نے بتایاکہ پی ٹی اے کو سوشل میڈیا کو بلاک کرنے کا کہا ہے، جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیے کہ عدل کا راستہ روکنا بھی گناہ ہے، کیا عدالت کو بند کر کے گھر چلے جائیں گے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے مسلمانوں کا اسلامی ریاست میں رہنا مشکل ہوتا جارہا ہے، اداروں کو بدنام کیا جارہا ہے، دھرنے والے میگا فون اورکرسیاں کہاں سے لے کر آئے، ہم کوئی احکامات نہیں دیں گے، حکومت کا جو کام ہے وہ خود کرے ‘بتایا جائے دھرنے کے اخراجات کون برداشت کررہا ہے۔

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا یہ لوگ باہر سے آئے تو آئی ایس آئی کو معلوم نہیں ہوا، آئی ایس آئی اتنا طاقتور ادارہ ہے، سنجیدگی دکھائیں، اس سے اچھی رپورٹ تو میڈیا دے گا، اٹارنی جنرل آپ میڈیا میں سے کسی کا انتخاب کریں وہ بہتر رپورٹ دیں گے، کیا دھرنے والے لوگوں کا کوئی کاروبار نہیں، دھرنے والے کیا ملنگ فقیر ہیں، ان کا ذریعہ معاش کیا ہے اور ان کے پیچھے کون ہے۔

کیا کوئی فارن فنڈنگ تو نہیں ہو رہی، دھرنے والوں نے مجھے گالیاں دیں تو ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں جب کہ آئندہ سماعت پر آئی بی اور آئی ایس آئی کے اعلیٰ حکام موجود ہوں۔عدالت نے دھرنے سے متعلق آئی بی اور آئی ایس آئی کی رپورٹس مسترد کرتے ہوئے کہا کہ دھرنے کے حوالے سے مثبت اقدامات کرکے رپورٹ پیش کریں -آئندہ سماعت پر عدالت نے آئی بی اور آئی ایس آئی کے سینئر افسران کو بھی طلب کرلیا ہے۔ عدالت نے دھرنا کیس کی سماعت آئندہ جمعرات تک ملتوی کردی ہے۔

متعلقہ عنوان :