ہیپاٹائٹس کے خلاف جنگ پاکستان کے بقاء کی جنگ ہے ، چاروں صوبوں کو مل کر لڑنا ہوگی‘خواجہ عمران نذیر

عالمی ادارہ صحت کے 2030 ء تک ہیپاٹائٹس فری پاکستان کا ہدف پورے ملک کا ہے ، صرف پنجاب کا نہیں،ہیپاٹائٹس پریونشن آرڈیننس جاری کرکے پنجاب نے اپنے کام کا آغاز کر دیا‘ صوبائی وزیر پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کا تقریب سے خطاب

بدھ 22 نومبر 2017 20:14

ہیپاٹائٹس کے خلاف جنگ پاکستان کے بقاء کی جنگ ہے ، چاروں صوبوں کو مل ..
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 نومبر2017ء) صوبائی وزیر پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ خواجہ عمران نذیر نے کہا ہے کہ ہیپاٹائٹس کے خلاف جنگ دراصل پاکستان کے بقاء کی جنگ ہے جسے چاروں صوبوں کو مل کر لڑنا ہوگی، اکیلا صوبہ پنجاب عالمی ادارہ صحت کا 2030 ء تک ہیپاٹائٹس فری پاکستان کا ہدف حاصل نہیں کر سکتا، بلکہ اس کے لیے انتھک کوششوں کی ضرورت ہے جو منظم اور مربوط طریقہ سے چاروں صوبوں کو کرنی چاہیے۔

خواجہ عمران نذیر نے مزید کہا کہ حکومت پنجاب نے ہیپاٹائٹس پریوینشن آرڈیننس 2017 ء کا اجراء کرکے اپنے حصے کے کام کا عملی آغاز کر دیا ہے، جس کا کریڈیٹ وزیر اعلیٰ محمد شہباز شریف اور محکمہ صحت کے افسران اور پوری ٹیم کو جاتا ہے۔ اُنہوں نے اِن خیالات کا اظہار ایک مقامی ہوٹل میں پنجاب ہیپاٹائٹس پریونشن آرڈیننس 2017 ء کے اجراء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

تقریب میں سیکرٹری ہیلتھ علی جان خان، سپیشل سیکرٹری ڈاکٹر فیصل ظہور، ڈاکٹر زاہدہ سرور، ڈاکٹر فاروق منظور ، ڈاکٹر مختار حسین سید، ڈاکٹر سعدین ،پی کی ایل آئی کے صدر ڈاکٹر سعید اختر، پروفیسر غیاث النبی طیب، انٹر نیشنل ڈویلپمنٹ پارٹنرز کے نمائندوں اور محکمہ کے افسران و سٹاف کی کثیر تعداد بھی موجود تھی۔ خواجہ عمران نذیر نے کہا کہ قانون بن گیا ہے لیکن اس پر عملدرآمد کے لیے تمام سٹیک ہولڈرزاور سول سوسائٹی کو اس میں بھر پور تعاون کرنا پڑے گا اور اپنے چھوٹے چھوٹے مالی مفادات سے بالاتر ہو کر اس بیماری کے خلاف متحد ہو کر مخلصانہ کوششیں کرنا ہوگی۔

اُنہوں نے کہا کہ صحت کے دو محکمے بننے سے قبل زیادہ توجہ مریضوں کے علاج پر ہوتی تھی لیکن ضرورت اس بات کی تھی کہ لوگوں کو مریض بننے سے بچایا جائے۔ جس کے لیے بیماریوں کی روک تھام کے پروگرام پر خصوصی توجہ دینا ضروری ہے جس کا آغاز پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ نے کر دیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہیپاٹائٹس کے خاتمہ کے لیے انتھک محنت کی ضرورت ہے، غفلت کی صورت میں یہ عفریت عوام کی صحت کو تباہ کرکے رکھ دے گا۔

قبل ازیں سیکرٹری ہیلتھ علی جان خان نے کہا کہ پاکستان اور پنجاب کو صحت کے شعبہ میں جن چار چیلنجز کا سامنا ہے اُن میں بچوں کی شرح اموات ، حاملہ خواتین کی شرح اموات، غذائیت کی کمی اور ہیپاٹائٹس کی بیماری کا تیزی سے پھیلائو سرفہرست ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ رواں سال ہیپاٹائٹس کے ایک لاکھ مریضوں کے علاج کا ٹارگٹ مقرر کیا گیا اور اب دوائی کورئیر سروس کے ذریعے مریضوں کے گھروں تک پہنچائی جا رہی ہے۔

صوبے کے 36 اضلاع میں ہیپاٹائٹس کے کنٹرول کے لیے سسٹم وضع کیا گیا ہے ۔ تما م ڈی ایچ کیو ہسپتالوں میں فلٹر کلینکس قائم کیے جا رہے ہیں۔ ایک مرتبہ استعمال کے بعد بیکار ہونے والی سرنجیں سسٹم میں 50 فیصد متعارف کروا دی گئی ہیں اور دوسال کے اندر مکمل طور پر AD سرنجیں استعمال ہونا شروع ہو جائیں گی۔ علی جان خان کا کہنا تھا کہ 62 فیصد تک ہیپاٹائٹس ڈسپوزیبل سرنجوں کے دوبارہ استعمال سے پھیل رہا ہے۔

پروگرام ڈائریکٹر ڈاکٹر زاہدہ سرور نے کہا کہ آرڈیننس کے اجراء کے بعد بیوٹی پارلرز ، حجاموں کی دکانوں کو لائسنس جاری کیے جائیں گے اُن کو تربیت فراہم کی جائے اور مانیٹرنگ کا میکنیزم بھی شروع کیا جائے گا ۔ تقریب سے پی کے ایل آئی کے صدر ڈاکٹر سعید اختر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں 12 لاکھ افراد کو جگر کی پیوندکاری کی ضرورت ہے۔

یہ آرڈیننس ہیپاٹائٹس کی بیماری کی روک تھام کے ساتھ خون سے پھیلنے والی دیگر مہلک بیماریوں کی روک تھام میں معاون ثابت ہوگا۔ پروفیسر غیاث النبی طیب کا کہنا تھا کہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اور پرائمری ہیلتھ کیئر ملکر ہیپاٹائٹس کی روک تھام اور علاج کے سلسلہ میں اقدامات کر رہے ہیں اور ٹیچنگ ہسپتالوں میں ہیپاٹائٹس کلینکس اور گیسٹرو انٹرولوجی یونٹ قائم کیے جا رہے ہیں۔وزیر صحت خواجہ عمران نذیر کا مزید کہنا تھا کہ پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ کے تمام سٹاف کی بلڈ سکریننگ کرادی گئی ہے ۔ علاوہ ازیں پولیس اہلکاروں کی سکریننگ اور ویکسینیشن کا پروگرام بھی مرتب کر لیا گیا ہے جس کے تحت 75000 پولیس ملازمین کی پہلے مرحلہ میں بلڈ سکریننگ اور ویکسینیشن کی جائے گی۔

متعلقہ عنوان :