نا اہل شخص کے پارٹی سربراہ بننے کا بل قومی اسمبلی میں مسترد

ْمتحدہ اپوزیشن کوقومی اسمبلی میں شکست کا سامنا،بل کی مخالفت میں 163جبکہ حمایت میں 98ووٹ پڑے بل کی منظور ی پر حکومت اور اپوزیشن کا ایوان زیریں میں ہنگامہ ،متحدہ اپوزیشن کی حکومت کے خلاف نعرے بازی ایوان گو نواز گو حکومت نامنظور کرپٹ حکومت کا سربراہ نامنظور نواز ہٹائو ملک بچائو ، چور نامنظور اور چوروں کا سربراہ نواز شریف پانامہ سکینڈل چور نواز شریف کے نعروں سے گونجتا رہا سپیکر کو ایوان کی کارروائی چلانے میں سخت مشکلات کا سامنا

منگل 21 نومبر 2017 20:48

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 21 نومبر2017ء) قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی شدید نعرے بازی اور شور شرابہ کے باوجود نااہل قراردئیے گئے شخص کے پارٹی سربرا بننے پر پابندی سے متعلق پیپلزپارٹی کا بل کثرت رائے سے مسترد ، متحدہ اپوزیشن کو شکست کا سامنا،بل پر رائے شماری کے دوران حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کو قومی اسمبلی میں 163 جبکہ اپوزیشن کو 98 ووٹ ملے۔

نااہل شخص کو پارٹی کا صدر بنانے اور انتخاب ایکٹ 2017 کا ترمیمی بل اسمبلی سے منظور کروانے پر حکومت اور اپوزیشن کا ایوان زیریں میں ہنگامہ متحدہ اپوزیشن کی حکومت کے خلاف نعرے بازی۔ گو نواز گو حکومت نامنظور کرپٹ حکومت کا سربراہ نامنظور نواز ہٹائو ملک بچائو ، چور نامنظور اور چوروں کا سربراہ نواز شریف پانامہ سکینڈل چور نواز شریف کے نعروں سے ایوان گونجتا رہا ۔

(جاری ہے)

سپیکر قومی اسمبلی کو ایوان کی کارروائی چلانے میں سخت مشکلات کا سامنا۔ گزشتہ روز اپوزیشن کی جانب سے پی پی کے پارلیمانی لیڈر سید نوید قمر کے انتخابات ایکٹ 2017 ء کا ترمیمی بل ایوان میں پیش کیا بل پر سپیکر قومی اسمبلی نے اراکین اسمبلی سے بل کی حمایت یا مخالفت کیلئے ووٹنگ کروائی گئی جس کو نوید قمر نے چیلنج کردیا اور سپیکر نے دوبارہ تمام ممبران اسمبلی کو اپنی نشستوں پر کھڑا کرکے گنتی کروائی جس کے مطابق حکمران جماعت کے بل کی مخالفت میں 163 ووٹ جبکہ بل کے حق میں 98 ووٹ آئے بل پر بات کرتے ہوئے سید نوید قمر نے کہا کہ نوید قمر یہ بل سینیٹ اور اسمبلی سے پاس کیا اور مجھا گیا کہ اس بل میں کیا خامیاں رہ گئی ہیں یہ خیال تھا کہ یہ ایک ترمیم کی گئی ہے الیکشن ایکٹ شخص جو نااہل ہوچکا ہو قومی اسمبلی یا سینیٹ کا سربراہ نہیں بن سکا اور باہر بیٹھ کر پالیسی بنا رہا ہو تو یہ مناسب چیز نہیں ہے اور 342 ممبران کا ایوان کوئی قانون سازی کرتا ہے اور باہر سے کوئی بندہ اس کو ڈکٹیٹ کرتا ہے جو یہ آئین کے آرٹیکل 242 اور 243 کی خلاف ورزی ہے اگر آپ ایک شخص کو فائدہ پہنچانے کیلئے کوئی قانون بناتے ہیں تو اس سے ملک کا نقصان ہوگا اگر پارلیمنٹ کو وقت دیا جاتا ہے جو کہ ہماری جمہوریت بھی ہے تو جو یہ باتیں ہورہی ہیں ۔

یہ بل جنرل الیکشن میں جانے کیلئے ہے اس بل میں تمام پارٹیوں نے اپنا حصہ ڈالا ہوا ہے اور مجھے امید ہے کہ یہ بل یہاں سے پاس ہوگا۔ اگر یہ بل یہاں سے پاس نہیں ہوتا تو یہ جو ائنٹ سیشن میں بھی جاسکتا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بل پر ہمارا موقف بھی شامل کی اجائے یہ بل سینیٹ سے پاس ہوکر آیا ہے پولیٹیکل پارٹی ایکٹ 2002 ء میں ایک پرویذو شق تھی کہ کوئی بھی نااہل شخص پارٹی کا سربراہ نہیں بن سکتا۔

حکومت نے اس کو ختم کیا اس بل کی (پیزو) کو سینیٹ میں زیر بحث لایا گی اور سینٹ نے اس بل کو پاس کیا اس مسئلے کے حل کیلئے یہ نشست کی جارہی ہے۔ اس بل کا ایک اثر یہ ہے اور آرٹیکل 62 کے تحت اگر کوئی نااہل ہوتا ہے تو پھر وہ پارٹی دفتر نہیں رکھ سکتا۔ حکومت آئین اور سپریم کورٹ کے پانامہ فیصلے سے متصادم بل پاس کروارہی ہے۔ شاہ محمود نے حکومت سے سوال کیا کہ آپ تیس سال سے حکومت کررہے ہیں کیا آپ کو اپنے پارٹی ممبران پر اتنا اعتماد نہیں ہے کہ کسی ایک ممبر کو پارٹی کا سربراہ بنا لیں۔

اگر آپ ایوان بالا سے منظور شدہ بل کو بلڈوز کریں گے تو اس سے سسٹم کمزور ہوگا نہ کہ طاقتور ۔ پی پی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے کہا کہ بڑے شرم کی بات ہے کہ جب عوام کی فلاح اور عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے کوئی قانون سازی کی جاتی ہے تو ایوان خالی ہوتا ہے اور جب ایک بندے کو بچانے کی باری آتی ہے تو پورا ایوان بھرا ہوا ہے۔ یہ بل اگر یہاں سے نامنظور بھی ہوجاتا ہے تو بھی یہ بل عوام کی عدالت میں زندہ رہے گا۔ حکمران جماعت کے اراکین کا یہ رویہ انتہائی غیر منصفانہ ہے اور انہیں آج ہی مان لینا چاہیے کہ ہم عوام کے مسائل حل کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔