امریکہ : مسلمانوں میں ہم جنس پرستوں کیخلاف پایا جانے والا تاثر کم ہونے لگا

دس برسوں میں کٹر سفید فام امریکیوں کے مقابلے میں مسلمان زیادہ تیزی سے ہم جنس پرستوں کو قبول کر رہے ہیں، 'پیو ریسرچ سینٹر' سروے

پیر 20 نومبر 2017 19:40

واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 20 نومبر2017ء) امریکہ میں مسلمانوں کے بارے میں یہ عام رائے کہ وہ ہم جنس پرستوں کے خلاف ہیں اب کسی حد تک غلط ثابت ہورہی ہے۔گوکہ امریکہ میں بسنے والے بیشتر ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگ ابھی بھی ہم جنس پرستی کو برا سمجھتے ہیں مگر 'پیو ریسرچ سینٹر' کے تازہ سروے کے مطابق گذشتہ دس برسوں میں کٹر سفید فام امریکیوں کے مقابلے میں مسلمان زیادہ تیزی سے ہم جنس پرستوں کو قبول کر رہے ہیں۔

میں واشنگٹن میں جب ہم جنس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ایک جوڑے سے ملنے ان کے گھر پہنچی تو گریسن اپنی پارٹنر عروج احمد کو پیانو پر ’سالگرہ مبارک ہو‘ نغمے کی دھن بجانا سکھا رہے تھے۔ گریسن کی والد کی سالگر آنے والی ہے اور عروج ،گریسن کی والد کی سالگرہ پارٹی پر ان کے لیے اسی گانے کی دھن بجانا چاہتی ہیں۔

(جاری ہے)

یہ دونوں پچھلے دو سالوں سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔

گریسن، خواجہ سرا ہیں جبکہ عروج اپنے آپ کو ’کوئیر‘ کہتی ہیں یعنی ان کو مرد، عورت، خواجہ سرا کسی سے بھی محبت ہوسکتی ہے۔ دونوں ہم جنس پرستوں اور خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرتے ہیں۔40 سالہ عروج کے گھر والوں کے لیے انھیں اس طرح تسلیم کرنا قطعی قبول نہیں تھا۔ ان کے دادا دادی کا تعلق انڈیا کے جلال آباد سے ہے جبکہ ان کا بچپن پاکستان کے شہر کراچی میں گزرا۔

1992 میں ان کا خاندان امریکہ منتقل ہو گیا تھا۔جب عروج کے بھائی کو ان کے ہم جنس پرست ہونے پر شک ہوا تو انھوں نے فوراً والد سے شکایت کی جس کے بعد ان کے گھر میں ہنگامہ شروع ہو گیا۔ اس وقت عروج 17 برس کی تھیں۔ عروج نے کہا کہ ’پہلے تو میں ڈر کے مارے امی سے جھوٹ بولتی رہی کہ بھائی کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ لیکن پھر ایک دن میری امی قرآن لے کر آ گئیں اور میرے سر پر رکھرکر بولیں اب بتاؤ۔

بس پھر مجھ سے جھوٹ نہیں بولا گیا اور میں نے ان کو بتا دیا کہ ہاں مجھے لڑکیاں پسند ہیں۔ اس وقت مجھے صرف لڑکیاں ہی پسند تھیں۔‘عروج بتاتی ہیں کہ اس وقت سوشل میڈیا نہیں تھا اور ’پاکستان یا امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی اس طرح کے موضوعات پر بات نہیں کرتی تھی۔ اس لیے میری ماں کو یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ ممکن کیسے ہے۔ وہ مجھ سے کہتی رہیں کہ اسلام کی راہ پر واپس آجاؤ۔‘۔

متعلقہ عنوان :