اقصادی راہداری کا طویل المدتی منصوبہ آخری مرحلے میں داخل

سی پیک کا نظر ثانی اور طویل المدتی منصوبے 30-2017 پر آ ج اجلاس متوقع اجلاس میں چینی سرمایہ کاروں کے حوالے سے اسلام آباد کی پالیسی اور دونوں ممالک کے تعاون سے اگلے 13 برسوں میں اہم امور کے حوالے سے بحث کی جائے گی

پیر 20 نومبر 2017 16:08

اقصادی راہداری کا طویل المدتی منصوبہ آخری مرحلے میں داخل
اسلا م آبا د(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 20 نومبر2017ء)مشترکہ تعاون کمیٹی (جے سی سی) برائے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کا نظر ثانی اور طویل المدتی منصوبے 30-2017 پر آ ج منگل کو اجلاس متوقع ہے۔اس اجلاس میں چینی سرمایہ کاروں کے حوالے سے اسلام آباد کی پالیسی اور دونوں ممالک کے تعاون سے اگلے 13 برسوں میں اہم امور کے حوالے سے بحث کی جائے گی۔

سینیئر حکام نے بتایا کہ دونوں اطراف کے حکام کے اجلاس (ایس او ایم) اور رسمی جے سی سی کے اجلاس کی صدارت دونوں ممالک کے وزرائ کی جانب سے کی جائے گی جس میں طویل المدتی منصوبے پر بحث کرتے ہوئے آخری معاہدے پر دستخط کیے جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ طویل المدتی منصوبے کا آخری ڈرافٹ، جو بیجنگ میں ہونے والے جے سی سی کے چھٹے اجلاس میں تیار کیا گیا تھا، اس پر صوبوں سے مشاورت کی گئی جس کے بعد وہ اب بھی بغیر کسی تبدیل کے اپنی اصل حالت میں ہے۔

(جاری ہے)

حکام کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت سی پیک سیمتعلق کابینہ کمیٹی میں پہلے ہی خصوصی پیکج کی منظوری دی جاچکی ہے، جس کے پہلے فیز میں بننے والے 9 خصوصی صنعتی و معاشی زونز کو 2020 تک مکمل کرنے کے لیے سرمایہ کاری کرنے والوں کو محصولات میں مکمل چھوٹ دینے کی منظوری بھی شامل ہے۔خصوصی پیکج میں شامل ٹیکسز اور ان کی معافی کے حوالے سے باقی رہ گئے تمام معاملات کو ایس او ایم اجلاس کے آخری مرحلے میں وزیر اعظم کی جانب سے حل کیا جائے گا۔

تاہم اگلے روز رسمی جے سی سی اجلاس میں بھی طویل المدتی منصوبے سے شروعات کی جائے گی جس کی صدارت وزیر ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال اور نائب صدر چینی قومی ترقی و ریفارمز کمیشن وانگ ڑیاوٹاو کی جانب سے کی جائیں گی۔سی پیک پر سرمایہ کاری کرنے والے چینی ترقیاتی بینک (سی ڈی بی) طویل المدتی منصوبے پر چین کی جانب سے ایک پیشکش کریں گے جس میں ایس او ایم اجلاس کے نتائج کے حوالے سے بتایا جائے گا اور پاکستان کی جانب سے اس کا جواب دیا جائے گا۔

جے سی سی کے آخری مرحلے میں دستاویزات پر دستخط کیے جائیں گے جن میں طویل المدتی منصوبہ بھی شامل ہے۔ڈان کے مطابق طویل المدتی منصوبے کے جنوبی ایشیائ میں جغرافیائی ماحول اور خطے میں بین الاقوامی طاقتوں کی جانب سے اپنائی گئی پالیسیز اور سیکیورٹی خدشات سی پیک کی تعمیر میں مایوس کن صورت حال پیدا کرسکتے ہیں۔ریل اور سڑکوں کے جال پر جاری تعاون کے علاوہ طویل المدتی منصوبہ مقامی کمیونیکیشن نیٹ ورک اور ٹی وی نیٹ ورک کی جانب سے معلومات کی فراہمی، چینی ڈیجیٹل ٹیریسٹریئل براڈکاسٹنگ (ڈی ٹی ایم بی) کے معیار کا پاکستان میں اطلاق اور محفوظ شہروں کی تعمیر میں الیکٹرانک نگرانی کی جائے گی۔

دونوں اطراف سے تجارت اور صنعتوں کے تعاون میں مضبوطی کے ساتھ ساتھ باہمی معاشی اور تجارتی رابطوں کو بڑھایا جائے گا۔دونوں ممالک کی جانب سے ٹیکسٹائل کی صنعتوں میں پیداوار کی کوالٹی اور کام کے معیار کو بڑھایا جائے گا۔دونوں جانب سے اپلائنس کی صنعت میں بھی تعاون متوقع ہے تاکہ پاکستان کی صنعتیں در آمد کیے گئے پارٹس کے بجائے اپنے پارٹس کو پیدا کرکے انہیں مارکیٹ میں فروخت کریں۔

دونوں ممالک بائیولاجیکل بریڈنگز، پیداوار، پروسیسنگ، اسٹوریج و نقل و حمل، بیماریوں کی روک تھام، پانی کے وسائل کی تعمیر اور استعمال، زمینی ترقی، کاشتکاری اور اس کی پیداوار کی فروخت تاکہ روایتی کاشتکاری سے ہٹ کر ہم جدید کاشتکاری کو اپنا سکیں، جیسے اہم امور میں تعاون کیا جائے گا۔دونوں جانب سے سیاحت کے فروغ پر تعاون کیا جائے گا جس میں خصوصی طور پر پاکستان اور چینی کے سرحدی کے علاقے شامل ہیں جبکہ پاکستان کے ساحلی علاقوں کو آباد کرتے ہوئے انہیں کاروبار اور سیاح دوست بنایا جائے گا۔

پاکستان میں بلدیاتی کاموں میں بین الاقوامی اور چین کے نئے شہری منصوبے کو اپنایا جائے گا جن میں پبلک ٹرانسپورٹ، پانی کی فراہمی اور نکاسی کا نظام شامل ہے۔اسی منصوبے میں دونوں جانب سے ایک مشترکہ پلیٹ فارم تیار کیا جائے گا جہاں سرحد پر ہونے والی تجارت، سرمایہ کاری، نگرانی، پیسوں کے سرحد پار خرچ پر قبل از وقت خدشات کا اظہار شامل ہیں۔

گوادر پورٹ فری زون کو شنگھائی فری ٹریڈ زون کی طرز پر تعمیر کیا جائے گا جس میں آف شور مالیاتی کاروبار کی اجازت ہو گی اور دونوں ممالک چینی اداروں، نجی شعبوں اور دیگر معاشی اداروں کو براہ راست سرمایہ کاری کے لیے دیے گئے فنڈز کی حوصلہ افزائی کریں گے۔بڑے پروجیکٹس کی جانچ کے لیے تشخیصی نظام کی تعمیر کی جائے گی جس میں طویل المدتی منصوبے کے حوالے سے ہر پانچ سالوں میں تشخیص کی جائے گی اور منصوبے کو اسی طرز پر اپنایا جائے گا۔