بریسٹ کینسر کی ابتدائی مراحل پر تشخیص سے اس سے مکمل بچاؤ کے امکانات 100 فیصد تک ہو سکتے ہیں، ماہرین

اتوار 19 نومبر 2017 18:50

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 نومبر2017ء) بریسٹ کینسرسے لڑنے والی باہمت خواتین اورہیلتھ ایجوکیٹرز کا کہنا ہے کہ بریسٹ کینسر کی ابتدائی مراحل پر تشخیص سے اس سے مکمل بچاؤ کے امکانات 100 فیصد تک ہو سکتے ہیں۔ خواتین کو اس سے بچانے کے لیے معاشرے کے ہر طبقے میں بڑے پیمانے پر مؤثر طریقے سے آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے برطانوی سماجی تنظیم امبریلا کینسر نیٹ ورک کے تحت رنگون والا کمیونٹی سینٹر دھوراجی میں خواتین کے لیے منعقدہ بریسٹ کینسر آگاہی سیمینار کے دوران کیا۔

سیمینار کا انعقاد دو مرتبہ بریسٹ کینسر کا مقابلہ کرنے والی ایک باہمت پاکستانی خاتون خدیجہ بکلی نے کیا تھا۔ خدیجہ بکلی ان دنوں برطانیہ میں امبریلا کینسر نیٹ ورک کے تحت لیونگ ویل فیسلی ٹیٹر ہیں اور بریسٹ کینسر کی جلد تشخیص اور بروقت علاج کی آگاہی پیدا کر رہی ہیں۔

(جاری ہے)

اسی سلسلے میں وہ پاکستان آئی ہوئی ہیں۔ سیمینار میں خواتین کی بڑی تعداد کے ساتھ مردوں نے بھی شرکت کی۔

سیمینار سے خطاب کے دوران اپنی جدوجہد کے بارے میں بتاتے ہوئے خدیجہ بکلی نے کہا کہ آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے دنیا بھر میں ہر سال ہزاروں خواتین بریسٹ کینسر کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں اور ہمارے جیسے مردوں کے معاشرے میں اس موضوع پر بات کرنے کی بھی ہمت نہیں کی جاتی اور اسے شرمندگی کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب انہوں نے اپنی بیماری کے بارے میں گھروالوں کو بتایا تو ان کے شوہر اور تمام گھروالے اس مشکل گھڑی میں ان کے ساتھ کھڑے ہوگئے اس لیے گھروالوںاور قریبی دوستوں کو اپنی بیماری کا بتانا بہت ضروری ہے تاکہ وہ آپ کی اخلاقی مدد بھی کر سکیں اور بیماری کی تشخیص بھی ابتدا میں ہی ہو جائے۔

اس سے کینسر کو آگے بڑھنے سے روکنے میں بہت مدد ملے گی۔ اس بیماری سے لڑنے کے لیے صرف جسمانی مدد کافی نہیں ہے۔ بیماری شناخت ہونے کی صورت میں پریشان ہونے کے بجائے اس کا بہادری سے مقابلہ کرنا چاہیے ۔ اس سے قبل بیماری کے بچاؤ کے لیے اقدامات جیسے چھاتی کا باقاعدگی کے ساتھ خود معائنہ کرنا اور اسکریننگ ضرور کرنے چاہیئں کیونکہ ابتدا میں شناخت ہونے پر اس بیماری سے مکمل طور پر چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔

اس موقع پر سیمینار روم میں خدیجہ بکلی کی والدہ اور بھائی بھی ان کی حوصلہ افزائی کے لیے موجود تھے۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے آغا خان ہیلتھ بورڈ کی ہیلتھ ایجوکیٹر دلشاد عبدالنبی نے بتایا کہ ہر سال 40 ہزار خواتین بریسٹ کینسر کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ان میں سے 90 سے 100 فیصد خواتین کو ابتدائی مراحل میں تشخیص اور بروقت علاج فراہم کرکے بچایا جا سکتا ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ بریسٹ میں 80 فیصد گلٹیاں کینسر نہیں ہوتیں اور بہت آسانی سے ان کا علاج ہو جاتا ہے۔ دلشاد عبدالنبی نے بتایا کہ اگرچہ اب تک کینسر کی وجوہات کا مکمل طور پر پتہ نہیں چلا ہے لیکن بچوں کی پیدائش میں وقفے کی گولیوں، 30 سال کی عمر کے بعد پہلے بچے کی پیدائش، بچوں کو اپنا دودھ نہ پلانے، وقت پر شادی نہ کرنا، موٹاپا، تمباکونوشی اور جسمانی ورزش نہ کرناجیسی وجوہات اس بیماری کو بڑھا سکتی ہیں۔

انہوں نے خواتین سے کہا کہ 20 سال کی عمر سے ہی لڑکیوں اور خواتین کو اپنی چھاتی کاخود معائنہ کرتے رہنا چاہیے اور اب ایسی ٹیکنالوجی بھی دستیاب ہے جس کی مدد سے بریسٹ کینسر کا دو سال قبل ہی پتا لگایا جا سکتا ہے۔ سیمینار سے یو بی ایل کے میڈیکل آفیسر ڈاکٹر امتیاز، اپوا کی بانی مسعودہ احمد، خدیجہ بکلی کی ٹیچر مسز رابعہ نے بھی خطاب کیا۔