سندھ یونیورسٹی میںابراہیم جویو چیئر قائم کی جائے، نوجوان نسل ابراہیم جویو کے پیغام کو سمجھ سکیں ، سندھ کے ادیبوں اور سیاستدانوں کا مطالبہ

محمد ابراہیم جویو کی سندھ میں ان کی علمی و ادبی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں، برصغیر نے جو اعلیٰ ترین ذہن پیدا کیے اُن میں محمد ابراہیم جویو بھی شامل تھے، پورے پاکستان میں اُن کے فکری شاگرد موجود ہیں، رسول بخش پلیجو، جامی چانڈیو، محسن اور دیگرکا آرٹس کونسل میں خطاب

اتوار 19 نومبر 2017 18:10

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 نومبر2017ء) سندھ کے ادیبوں ،دانشوروںاور سیاستدانوں نے کہا ہے کہ سندھ یونیورسٹی میںابراہیم جویو چیئر قائم کی جائے تاکہ نوجوان نسل ابراہیم جویو کے پیغام کو سمجھ سکیں اور اس پر تحقیق کرسکیں۔ یہ بات انہوں نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں معروف ادیب ، دانشور، مترجم، معلم محمد ابراہیم جویو کی یاد میں علمی و ادبی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

مقررین میں معروف سیاستدان ودانشور رسول بخش پلیجو، جامی چانڈیو، محسن جویو، سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی شیخ، ایاز لطیف پلیجو، ڈاکٹر ایوب شیخ،اعجاز قریشی، ڈاکٹر مظہر جمیل ،امداد حسینی، راحت سعید، ڈاکٹر جے پال، سحر امداد، روچی رام، سلیم میمن ،صادقہ صلاح الدین، رحمت پیرزادہ، رفیق منگی اور دیگر شامل تھے۔

(جاری ہے)

مقررین نے محمد ابراہیم جویو کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ محمد ابراہیم جویو کی سندھ میں ان کی علمی و ادبی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ برصغیر نے جو اعلیٰ ترین ذہن پیدا کیے اُن میں محمد ابراہیم جویو بھی شامل تھے۔انہوں نے کہا کہ پورے پاکستان میں اُن کے فکری شاگرد موجود ہیں۔ محمد ابراہیم جویو ترقی پسند تحریک کے ان لوگوں میں شمار کیے جاتے تھے جو ہمیشہ سچ پر ڈٹے رہتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم محمد ابراہیم جویو کی فکری بسیط کو دُنیا تک پہنچائیں۔ انہوں نے کہا کہ محمدا براہیم جویو نے صحیح معنوں میں برصغیر اور بالخصوص سندھ کے سماج کو شعور بخشا۔ بلاشبہ محمد ابراہیم جویو سندھی علم وادب کے اہم ستون تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ محمد ابراہیم جویو سندھی کے ایک نستعلیق ادیب تھے ،وہ سندھی زبان کی باریکیوں کو خوب جانتے تھے۔

انہوں نے 50سے زیادہ کتابیں لکھیں اور تراجم کیے جو21والیم کی شکل میں موجود ہیں۔ محمد ابراہیم جویو نے سندھ لغت، سندھی لو ک ادب اور سندھی ادبی بورڈ میں خدمات انجام دیں۔مقررین نے مزید کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم محمد ابراہیم جویو جیسی علمی و ادبی شخصیات کے کام کو نئی نسل تک پہنچائیں۔مقررین نے کہا کہ سندھ میں اُن کی ایک پہچان تعلیم دان کی بھی تھی کیونکہ وہ اِس شعبے سے عرصہ دراز تک وابستہ رہے مگر وہ جس بھی ادارے میں رہے اُسے بہتر کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

خواہ وہ سندھی ادبی بورڈ ہو یا سندھ ایجوکیشن ٹرسٹ و دیگر ادارے ہوں۔ محمد ابراہیم اُن لوگوں میں سے تھے جوکہ اداروں کے معمار تصور کیے جاتے ہیں۔ اِسی طرح وہ مختلف اداروں کو بناتے و سنوارتے خود ایک ادارہ بن گئے۔ جن کے علم و شعور سے کئی لوگوں نے اپنی علمی پیاس بجھائی ہے۔مقررین نے کہا کہ وہ لوگوں کو مادی چیزوں کی حاصلات سے زیادہ ذہنی آبیاری کرنے کی ترغیب دیا کرتے تھے۔

آج بھی ان کی حیثیت سندھ کے نوجوانوں میں کسی آئیڈیل سے کم نہیں ہے۔ جہاں انہوں نے ادارے بنائے اور ان کی ترقی و ترویج میں اہم کردار ادا کیا وہاں انہوں نے سندھ میں لوگوں کی بھی کئی حوالوں سے تربیت کی ہے۔ جس کی بدولت سندھ میں آج بھی ترقی پسند فکر کی جڑین مضبوط نظر آتی ہیں۔ اپنی زندگی میں خود کو ہر وقت کام میں مشغول رکھنے والے ابراہیم جویو ایک صدی کی ایک ایسی داستان رہے جنہوں نے کٹھن حالات میں بھی اپنے نظریاتی اساس کو خیرباد نہیں کہا بلکہ اُس پر ڈٹے رہے اور آخر تک ان کا دفاع بھی کرتے رہے۔ محمد ابراہیم جویو جیسی شخصیت کے بچھڑنے پر سندھ کے عوام ایک بڑے ادیب استاد سے محروم ہو گئی ہے۔

متعلقہ عنوان :