غیر متو قع موسمیاتی تبدیلیاں، زرعی اجناس کے تحفظ کیلئے اقدامات ضروری قرار ،کاشتکا ،محکمہ زراعت کی سفارشات پر عمل کریں ‘ زرعی ماہرین

درجہ حرار ت غیر معمولی طو رپر بڑھنے سے سبزیوںاور دالوں کے علاوہ مکئی اور کماد جیسی سخت جان فصلیں بھی جھلسنے لگیں،محکمہ زراعت کی شعوری مہم جاری

اتوار 19 نومبر 2017 14:10

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 نومبر2017ء)زرعی ماہرین نے کہا ہے کہ اچانک موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کاشتکار محکمہ زراعت کی سفارشات پر عمل کریں ،موسمی تغیرات کی وجہ سے مجموعی زرعی ترقی کا عمل متاثر ہورہا ہے کیونکہ کاشتکاروں کواپنی کاشتہ فصلوں کو سخت گرمی یا سردی کے علاوہ بارشوں کے نقصانات سے بچانے کے لئے اضافی اخراجات کرنے پڑ رہے ہیں۔

موسمی شدت اور معیاری خوراک کی فراہمی میں کمی کے باعث انسانوں کے معاشرتی رویوںمیں منفی تبدیلیاں وقوع پذیر ہورہی ہیں۔ جانوروں اور انسانوں کے علاوہ فصلوں میں بھی نئی بیماریاںظاہر ہونے لگی ہیں۔فصلوں کے ضرررساں کیڑوں اور بیماریوں کی نوعیت اور شدت میں نمایاں فرق پیدا ہوچکا ہے۔مختلف فصلوں میں نئی جڑی بوٹیاں، وائرسز اور ضرررساں کیڑے مشاہدہ میں آئے ہیں۔

(جاری ہے)

زرعی سفارشات میں تبدیلی کی شدید ضرورت ہے کیونکہ مختلف فصلوں کے وقت اورطریقہ کاشت کے علاوہ آبپاشی کے متعلق سفارشات بہت بدل چکی ہیں۔ترقی پسند کاشتکاروں نے موسمی تغیرات و تبدیلیوں کے باعث زرعی سائنسدانوں کی متعارف کردہ جدیدسفارشات اپنے طور پراختیار کرلی ہیں مگر چھوٹے کاشتکار ان سفارشات پر عمل پیرا نہیں ہو رہے جس کی وجہ سے ان کی فی ایکڑ پیداوار ترقی پسند کاشتکاروں کی نسبت کم ہے۔

اگرچہ اس حقیقت سے ہرکوئی آگاہ ہے کہ موسم پہلے جیسے نہیں رہے لیکن حالیہ سالوں میں وقوع پذیر ہونے والے بعض ایسے عوامل اس کی واضح دلیل ہیں۔ دنیا کے گلیشئر پگھلنے کی وجہ سے ویسٹ انڈیز، انڈونیشیا اور مالدیپ کے سینکڑوں جزائر سمندر میں غرق ہوچکے ہیں اور یہ عمل بڑی سرعت کے ساتھ جاری ہے۔ نیدر لینڈ کی حفاظت کے لئے سمندر کے آگے پشتے باندھنے کے مزید نئے منصوبوں پر عمل کیا جارہا ہے۔

عالمی سطح پر موسمی تبدیلیوں کے دیگر بے شمارمظاہر بھی موجود ہیں۔ یہ بات مصدقہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث گرمی کے دورانیہ میں اضافہ ہورہاہے ، آبی ذخائر کی کمی واقع ہورہی ہے،بارشی نظام تبدیل ہورہاہے،میتھین گیس میں اضافہ ہورہاہے،ضرررساں کیڑوں اور بیماریوں میں اضافہ ہورہاہے،بڑی فصلوں کی پیداوار میں کمی واقع ہورہی ہے۔ ٹریفک اور صنعتی آلودگی کی وجہ سے اوزون تہہ پتلی ہورہی ہے۔

سورج کی انفراریڈ(گرم) شعاعیں زیادہ مقدار میں زمین پر آنے لگی ہیںاس لئے شدید گرمی کے ریکارڈ قائم ہورہے ہیں۔پنجاب میں مئی سے جولائی کے درمیان درجہ حرارت اتنا زیادہ ہوجاتا ہے کہ سبزیوںاور دالوں کے علاوہ مکئی اور کماد جیسی سخت جان فصلیں بھی جھلس جاتی ہیں۔ شدید گرمی سے فصلوں کے پتے جلنے سے پیداوار بری طرح متاثرہوتی ہے۔فصلوں کی کاشت سے لے کر برداشت تک بیشتر عوامل حرارتی تغیر سے متاثر ہوتے ہیں۔

بعض اوقات درجہ حرارت کے تدریجی اتار چڑھائو سے فصلوں کے نشوونمائی مراحل بخیروخوبی انجام پذیرہونے سے زیادہ پیداوار حاصل ہوتی ہے جبکہ درجہ حرارت اچانک زیادہ تیزی سے بڑھنے سے بعض فصلوں کے پتے دھوپ زدگی کاشکارہوجاتے ہیں۔ درجہ حرارت بہت کم ہونے سے بعض فصلیںکہر زدگی سے متاثرہوتی ہیں اور پیداوار میں نمایاں کمی ہوجاتی ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں سلسلہ وار بارشوں کی بجائے بعض اوقات اچانک شدید بارشیں دیکھنے میں آئی ہیں۔ 2001 تا 2007 میں مختلف فصلوں کی پیداواری رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے باعث دانے سکڑ گئے اورربیع کی فصلوں کی ابتدائی بڑھوتری اچھی ہونے کے باوجود پیداوار میں کمی ہوئی تھی۔