افغانستان میں بچوں کاریپ ثقافتی رسم ہے، اس سے دور رہیں،امریکی فوج کو ہدایت جاری

چونکہ افغانستان ایک خودمختار ملک ہے لہذا امریکی افواج بچوں کے ریپ کے معاملے پر کوئی اقدامات نہیں کر سکتی، امریکی فوجی کو دی جانے والی ہدایت سے ایسے عمل کی حوصلی شکنی کو ترجیح نہیں دی گئی ہے تاہم اس میں بہتر یہی ہے کہ صورت حال کو نظر انداز کیا جائے اور معاملے کو مقامی پولیس کو نمٹنے دیا جائے،افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کا موقف

ہفتہ 18 نومبر 2017 15:30

افغانستان میں بچوں کاریپ ثقافتی رسم ہے، اس سے دور رہیں،امریکی فوج کو ..
واشنگٹن/کابل (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 18 نومبر2017ء) امریکی محکمہ دفاع نے امریکی افواج کو افغانستان میں بچوں کے ریپ کے معاملات کو نظر انداز کیے جانے کے احکامات جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ان کی ثقافتی طور پر قبول کی گئی رسم ہے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی محکمہ دفاع کے ذیلی ادارے انسپکٹر جنرل کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا کہ ثقافتی شعور کے حوالے سے افغانستان میں تعینات امریکی اہلکاروں کی ٹریننگ کے مرحلے میں یہ بات سامنے آئی کہ بچوں کا ریپ کیا جانا افغانستان میں ثقافتی طور پر قبول کی گئی رسم ہے۔

انسپکٹر جنرل کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ ان کے مشاہدات کا مقصد ایسے مخصوص حکم یا ضابطہ اخلاق تیار کرنا نہیں ہے جس سے بچوں کے ساتھ ریپ کے واقعات کو رپورٹ کرنے کے حوالے سے اہلکاروں کی حوصلہ شکنی ہو۔

(جاری ہے)

افغانستان میں تعینات امریکی فوجی اہلکاروں نے بتایا کہ چونکہ افغانستان ایک خودمختار ملک ہے لہذا امریکی افواج بچوں کے ریپ کے معاملے پر کوئی اقدامات نہیں کر سکتی۔

ان اہلکاروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکی فوجی کو دی جانے والی ہدایت سے ایسے عمل کی حوصلی شکنی کو ترجیح نہیں دی گئی ہے تاہم اس میں بہتر یہی ہے کہ صورت حال کو نظر انداز کیا جائے اور معاملے کو مقامی پولیس کو نمٹنے دیا جائے۔خیال رہے کہ امریکی اخبار دی نیویارک ٹائمز کی جانب سے شائع کی گئی ایک رپورٹ میں پینٹاگون پر الزام لگایا گیا تھا کہ پینٹاگون نے مبینہ طور پر امریکی افواج کو افغان پولیس اور ملٹری حکام کی جانب سے بچوں کے ساتھ ریپ کے واقعات کی رپورٹ کرنے سے روک دیا ہے۔

رپورٹ میں مزید دعوی کیا گیا تھا کہ کچھ امریکی فوجیوں کو ایسے واقعات کو رپورٹ کرنے پر سزائیں بھی دی گئی ہیں۔واضح رہے کہ پینٹاگون نے امریکی میڈیا کی رپورٹ کو مسترد کردیا تھا جبکہ امریکی قانون سازوں نے انسپکٹر جنرل کو ہدایت کی تھی کہ معاملے کی تحقیقات کرکے کانگریس میں اس حوالے سے رپورٹ جمع کرائی جائیں۔انسپکٹر جنرل کی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ امریکی آرمی اور ایئرفورس کی ٹریننگ میں بچوں کے ریپ کے معاملے پر بحث نہیں کی جاتی لیکن میرین اور نیوی اہلکاروں کو اس بارے میں ہدایات دی جاتی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ نیوی کے ٹریننگ کے دوران جاری ہدایت نامے میں تعیناتی کے دوران ثقافتی فرق کی وجہ سے سامنے آنے والے حالات کو نظر انداز کرنے کی ہدایت دی جاتی ہے جبکہ جبکہ میرینز کو ایسے معاملات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنے اور ان سے نمٹنے کے لیے احکامات دیے جاتے ہیں۔تاہم دیگر حاضر اور سابقہ فوجی افسران نے امریکی اخبار کو بتایا کہ انہیں ایسے معاملات کو نظر انداز کرنے کے احکامات دیے جاتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق انہیں بچوں کے ساتھ جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے معاملے کو دیکھ کر معاملے میں عمل دخل سے گریز کرتے ہوئے مقامی پولیس حکام کو اطلاع دینے کا کہا جاتا ہے۔ایک اور سینئر اہلکار نے اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ سے قبل اعلی حکام کو اس معاملے کی کوئی فکر نہیں تھی۔

متعلقہ عنوان :