وزیر اعلی سندھ کی زیر صدارت اپیکس کمیٹی کا اجلاس، شہر قائد میں بڑھتے ہوئے جرائم پر تشویش کا اظہار

اسٹریٹ کرائمز کا مکمل سدباب ناگزیر ہے، کراچی کے امن پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، سید مراد علی شاہ کراچی آپریشن کے بعد جہاں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی وہیں اسٹریٹ کرائم کی شرح بھی کسی حد تک کنٹرول میں آگئی تھی، شہریوں نے سکھ کا سانس لیتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا شکریہ ادا کیا لیکن یہ سکون بھی عارضی ثابت ہوا، بلاشبہ ٹارگٹ کلنگ کی کیفیت گزشتہ دور کی طرح بدتر نہیں لیکن اسٹریٹ کرائمز نے پھر سے سر اٹھانا شروع کیا ، اب صورتحال یہ ہے کہ شہری ایک بار پھر خود کو گھر سے باہر غیر محفوظ تصورکررہے ہیں، وزیر اعلی سندھ کا اجلاس سے خطاب

جمعہ 17 نومبر 2017 21:14

وزیر اعلی سندھ کی زیر صدارت اپیکس کمیٹی کا اجلاس، شہر قائد میں بڑھتے ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 17 نومبر2017ء) ملک کے دیگر شہروں کی طرح شہر قائد بھی اسٹریٹ کرائمز سے محفوظ نہیں بلکہ کراچی میں اسٹریٹ کرائمز کی شرح سنگین حدیں کراس کررہی ہے۔ وزیراعلیٰ ہاؤس میں سندھ کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں شہر میں بڑھتے ہوئے جرائم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ کراچی کے امن پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور کراچی میں اسٹریٹ کرائمز کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کیا جائے گا۔

انہوں نے کہاکہ کراچی سیف سٹی منصوبے کے لیے نگران کمیٹی بنائی جارہی ہے، اس کمیٹی میں رینجرز، پولیس اور دیگر اداروں سے ممبران منتخب کیے جائیں گے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ کہ اسٹریٹ کرائمز کو ہر صورت میں کنٹرول کرنا ہے۔

(جاری ہے)

ملک کے معاشی ہب میں ایک وقت تھا جب جرائم کی شرح اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ معاملات کا سلجھاؤ ناممکن دکھائی دینے لگا تھا، لیکن کراچی آپریشن کے بعد جہاں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی وہیں اسٹریٹ کرائم کی شرح بھی کسی حد تک کنٹرول میں آگئی تھی، شہریوں نے سکھ کا سانس لیتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا شکریہ ادا کیا لیکن یہ سکون بھی عارضی ثابت ہوا، بلاشبہ ٹارگٹ کلنگ کی کیفیت گزشتہ دور کی طرح بدتر نہیں لیکن اسٹریٹ کرائمز نے پھر سے سر اٹھانا شروع کیا اور اب صورتحال یہ ہے کہ شہری ایک بار پھر خود کو گھر سے باہر غیر محفوظ تصورکررہے ہیں۔

اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں یہ اہم بات بھی سامنے آئی کہ اس سال 1038 فور وہیلرز، 18337 ٹو وہیلرز اور 17184 موبائل فون چھیننے، چوری کے کیسز درج ہوئے ہیں۔یہ بات قابل غور ہے کہ سندھ میں 25 لاکھ غیر قانونی آبادکار رہتے ہیں، جن میں افغانی، بنگالی، بہاری، برمی اور دیگر شامل ہیں، اور دہشت گردی و اسٹریٹ کرائمز کی اکثر وارداتوں میں غیر قانونی آباد کار بھی پکڑے گئے ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ نے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے بالکل صائب درخواست کی ہے کہ وہ اسٹریٹ کرائمز کے مقدمات کے ٹرائل کے لیے الگ عدالتیں قائم کریں۔ اس جانب پیش رفت کی جانی چاہیے۔ اسٹریٹ کرائمز کے سدباب کے لیے بے روزگاری کا خاتمہ بھی ازحد ضروری ہے۔ دوسری جانب پولیس کے محکمہ کی کارکردگی پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے کی ضرورت ہے۔ اسٹریٹ کرائمز کے مکمل خاتمے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، نیز شہریوں کو بھی جرائم کے خلاف میدان عمل میں آتے ہوئے اپنے گرد و پیش سے چوکنا رہنا اور مجرموں کی نشاندہی کرنا ہوگی۔