سینیٹر عبدالرحمن ملک کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس

بھارتی مداخلت کو اقوام متحدہ میں اٹھایا اور بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے لایا جائے، سینیٹر عبدالرحمن ملک

جمعہ 17 نومبر 2017 19:45

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 17 نومبر2017ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے بلوچستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے خلاف چیئرمین کمیٹی سینیٹر عبدالرحمن ملک کی پیش کردہ مذمتی قرارداد منظور کرلی ہے۔ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر عبدالرحمن ملک ہوا، کمیٹی نے ڈی آئی جی کوئٹہ حامد شکیل، ایس پی اور ان کے اہل خانہ کی شہادت پر اظہار افسوس کرتے ہوئے ان واقعات کے علاوہ ترتب میں 15شہریوں کے قتل کی بھی مذمت کی اور غم زدہ خاندانوں سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے شہدا کے درجات کی بلندی کی دعا کی۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر عبدالرحمن ملک نے کہاکہ حکومت بھارتی مداخلت کے معاملات کو اقوام متحدہ میں اٹھائے اور بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے لایا جائے، بھارت نے پاک چین اقتصادی راہداری کو سبوتاژکرنے اور بلوچستان میں بد امنی کے لیے 50 کروڑ ڈالر مختص کیے ہیں۔

(جاری ہے)

سینیٹر سردار فتح محمد محمد حسنی نے کہا کہ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے، بلوچستان میں بدامنی پھیلانے میں بھارت ملوث ہے۔

سینیٹر کرنل (ر)طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ بھارتی گہری سازش اور منصوبہ بندی کوبے نقاب کرنا چاہیے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر عبدالرحمن ملک نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیر حیات کے بیان کو بھی قرارداد کا حصہ بنایا۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ بلوچستان کے ہزاروں لوگ ملک سے باہر ہیں ، بنیادی معاملات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

چیئرمین کمیٹی نے بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے وفاق کی طرف سے رکھے گئے فنڈز اور محکمہ جات کی کارکردگی کے بارے میں آئندہ اجلاس میں وزارت خزانہ، داخلہ اور متعلقہ اداروں کو طلب کرلیا۔ سینیٹر سراج الحق کی طرف سے فحش مواد پر سزا بڑھانے اور اسے سی آر پی سی کا حصہ بنانے کے بل پر وزارت قانون اور داخلہ نے رضامندی کا اظہار کیا۔ اب بل پیر کو ایوان بالا میں پیش کیا جائے گا۔

فیض آباد دھرنا پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ مستقبل میں کسی کو اسلام آباد کی شاہراہوں پر احتجاج کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ دھرنا دینے والوں ، احتجاج کرنے والوں کو کسی ایک جگہ تک محدود کیاجائے۔ دارالحکومت کو مفلوج کرنا پورے ملک کو مفلوج کرنے کے مترادف ہے۔احتجاج کیلئے ہائیکورٹ اسلام آباد نے جس جگہ کی اجازت دی ہے اسی جگہ پر احتجاج ہونا چاہیے۔

اسلام آباد انتظامیہ اگر سخت انتظامات کر لیتی تو عوام کی تکالیف میں کمی ہو سکتی تھی، اسلام آباد انتظامیہ کو معلومات ملنے کے باوجود دھرنے سے پہلے سخت اقدامات اٹھانے چاہیے تھے۔طاقت کے استعمال کی بجائے گفت و شنید کے ذریعے احتجاج ختم ہونا چاہیے۔ خاص جگہ پر احتجاج کیلئے بل لانے کیلئے تیار ہیں۔ ختم بنوت سے کسی کو اختلاف نہیں، پارلیمنٹ نے اپوزیشن اور حکومت سے بالاتر ہوکر مکمل اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے۔

انتظامیہ کی نا اہلی ہے کہ جڑواں شہروں کو یرغمال بنا لیا گیا ہے۔ ہائیکورٹ کے بھی احکامات آگئے ہیں انتظامیہ قانون کا مکمل استعمال کرتے ہوئے احتجاج ختم کروائے۔ وزیر مملکت داخلہ طلال چوہدری نے کہا کہ پنجاب حکومت نے لاہور سے روانہ ہونے سے پہلے احتجاج کرنے والے رہنماؤں سے مذاکرات کیے تھے، رہنماؤں نے وعدہ کیا تھا کہ ہم اسلام آباد داخل نہیں ہونگے مگر وعدہ خلافی کی گئی اور یہاں پہنچ کر سٹرکیں بند کر دی گئیں، ہم خون خرابہ نہیں چاہتے۔

حکومت نے راجہ محمد ظفرالحق اور وزراء پر مشتمل الگ الگ کمیٹیاں بھی قائم کی ہیں لیکن دھرنا دینے والے ہٹ دھرمی پر قائم ہیں۔چیف کمشنر اسلام آباد نے بتایا کہ دھرنہ دینے والوں میں کچھ افراد کے پاس اسلحہ موجود ہے۔ پنجاب حکومت کو اسلام آباد داخلے سے پہلے احتجاج کرنے والوں کو روکنا چاہیے تھا۔ تعداد تین سے چھ ہزار تک ہے۔ پنجاب بھر اور راولپنڈی اسلام آباد کے گدی نشینوں سے بھی بات چیت ہوئی ہے، اٴْمید ہے کہ فیض آباد جلد خالی کروالیا جائے گا۔

سینیٹر طاہر مشہدی نے کہا کہ ختم بنوت مسئلہ پر کوئی اختلاف نہیں، دھرنے والوں نے پوری قوم کی زندگی مفلوج کر دی ہے۔ سینیٹر صالح شاہ نے کہا کہ ایک مخصوص طبقہ احتجاج کر رہا ہے اور گالی گلوچ کا انداز اختیار کیا گیاہے۔ چیئرمین کمیٹی نے ہدایت دی کہ گالی گلوچ دینے والوں کے خلاف قانون کے مطابق مقدمات درج کیے جائیں۔ آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ 15 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

وزیر مملکت طلال چوہدری نے بتایا کہ پنجاب بھر سے تقریباً 4 سو افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔دھرنا دینے والوں میں کراچی ، آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا کے شہری بھی شامل ہیں۔ دی نیوز کے صحافی احمد نورانی پر نامعلوم افراد کے حملے کے بارے میں آئی جی نے بتایا کہ ہر پہلو سے تفتیش تیزی سے جاری ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے ہدایت دی کہ دو ہفتوں میں رپورٹ دی جائے۔

خود کار اسلحہ لائسنسوں کی معطلی کے حوالے سے سینیٹر فتح محمد محمد حسنی نے کہا کہ اسلحہ لائسنس خود اپنی حفاظت کیلئے حاصل کیا جاتا ہے۔ وزیر مملکت طلال چوہدری نے بتایا کہ صرف خود کار اسلحہ لائسنس پر پابندی کی تجویز ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ممبران پارلیمنٹ کی سفارش پر شہریوں کو لائسنس دیئے گئے ہیں۔دیئے گئے اسلحہ لائسنسوں کی درجہ بندی کر کے کمیٹی کو تفصیلات سے آگاہ کیا جائے۔

سینیٹر روبینہ عرفان کے گھر میں ڈکیتی کے معاملے پر بلوچستان پولیس سے مکمل تفصیلات طلب کر لی گئیں۔کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز طاہر حسین مشہدی ، سردارفتح محمد محمد حسنی ، صالح شاہ ،سراج الحق کے علاوہ وزیر مملکت داخلہ طلال چوہدری ، سیکرٹری وزارت ،آئی جی اسلام آباد ، چیف کمشنر اسلام آباد، ڈی آئی جی بلوچستان ، وزارت قانون کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔