ایک چھوٹا پارلیمانی وفد بنایا جائے جو کے پی میں گوانتاناموبے اور بگرام کی طرز کی جیلوں میں جا کر حقیقت معلوم کرے،سینیٹر فرحت اللہ بابر کی تجویز

ایڈ آف سول پاور ریگولیشن 2011ء کے تحت درجنوں حراستی مرکز ملک کے مختلف علاقوں میں بنائے گئے ہیں جہاں دہشتگردی سے متعلق معاملات میں مبینہ طور پر ملوث افراد کو رکھا گیا ہے، یہ ریگولیشن موثر بہ ماضی کیا گیا جس سے قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو ان لوگوں کو منظر عام پر لانے کی حوصلہ افزائی ہوتی جو سوات اور مالاکنڈ میں دہشتگردی کے خلاف جنگ کے دوران گرفتار کئے گئے۔ یہ موقع تھا اور ایجنسیوں کے لئے بڑی رعایت تھی کہ جن لوگوں کو بغیر کسی مقدمے کے حراست میں رکھا گیا ہے انہیں منظر عام پر لا کر ان کے خلاف مقدمات چلائے جائیں تاہم یہ تمام حراستی مراکز گوانتاناموبے کی طرز کی جیلیں بن گئے ہیں اور ایسی جگہ ہے جہاں سے کسی قسم کی معلومات باہر نہیں آتی، نہ ہی پارلیمنٹ اور نہ ہی سپریم کورٹ کو ان قیدیوں پر الزامات سے آگاہ کیا گیا ہے،سینیٹ میں اظہار

جمعہ 17 نومبر 2017 18:30

ایک چھوٹا پارلیمانی وفد بنایا جائے جو کے پی میں گوانتاناموبے اور بگرام ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 17 نومبر2017ء) پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے تجویز دی ہے کہ ایک چھوٹا پارلیمانی وفد بنایا جائے جو کے پی میں گوانتاناموبے اور بگرام کی طرز کی جیلوں میں جا کر حقیقت معلوم کرے۔ عوامی اہمیت کے معاملے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے جمعہ کو سینیٹ میں کہا کہ ایڈ آف سول پاور ریگولیشن 2011ء کے تحت درجنوں حراستی مرکز ملک کے مختلف علاقوں میں بنائے گئے ہیں جہاں دہشتگردی سے متعلق معاملات میں مبینہ طور پر ملوث افراد کو رکھا گیا ہے۔

یہ ریگولیشن موثر بہ ماضی کیا گیا جس سے قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو ان لوگوں کو منظر عام پر لانے کی حوصلہ افزائی ہوتی جو سوات اور مالاکنڈ میں دہشتگردی کے خلاف جنگ کے دوران گرفتار کئے گئے۔

(جاری ہے)

یہ موقع تھا اور ایجنسیوں کے لئے بڑی رعایت تھی کہ جن لوگوں کو بغیر کسی مقدمے کے حراست میں رکھا گیا ہے انہیں منظر عام پر لا کر ان کے خلاف مقدمات چلائے جائیں تاہم یہ تمام حراستی مراکز گوانتاناموبے کی طرز کی جیلیں بن گئے ہیں اور ایسی جگہ ہے جہاں سے کسی قسم کی معلومات باہر نہیں آتی۔

نہ ہی پارلیمنٹ اور نہ ہی سپریم کورٹ کو ان قیدیوں پر الزامات سے آگاہ کیا گیا ہے، نہ یہ بتایا گیا ہے کہ ان پر مقدمات چل رہے ہیں یا نہیں، یہ کتنے عرصے سے قید ہیں اور ان میں کتنے حراست کے دوران فوت ہو گئے ہیں بعدازاں میڈیا سے بات کرتے ہوئے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اس ہفتے سپریم کورٹ میں پیش کی گئی کے پی کی رپورٹ مزید تشویشناک ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق کے پی کے بیشتر اضلاع میں فوج کو بلا لیا گیا ہے اور آئین کے آرٹیکل 245(3) کے اختیارات معطل کر دئیے گئے ہیں۔ اب کوئی نہیں جانتا ہے کہ سرکاری طور پر اعتراف کردہ صرف 45حراستی مراکز ہیں یا گوانتاناموبے کی طرز کے مزید بہت سے حراستی مراکز موجود ہیں۔ عوامی اہمیت کے ایک اور مسئلے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے ملٹری لینڈ اینڈ کنٹونمنٹ میں کیڈر افسروں کو ڈائریکٹر جنرل کا عہدہ نہ دینے کی جانب بھی توجہ دلائی ۔

تقریباً ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے یہ عہدہ کیڈر پوسٹ کے افسروں کو نہیں دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مختلف سول سروسز گروپس کے افسران اعلی ترین عہدے پر نہیں جا سکتے اور اس عہدے پر نان کیڈر افسران قابض ہیں۔ آخری مرتبہ نان کیڈر افسر کی اس عہدے پر تقرری کرتے وقت وزیراعظم نے کہا تھا کہ یہ نان کیڈر افسر کے لئے آخری تقرری ہے اور اس عہدے کو دوبارہ کیڈر افسروں کو دیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ سینیٹ چیئرمین رضا ربانی نے یہ معاملہ سینیٹ کی متعلقہ کمیٹی کو تجزیے اور رپورٹ کے لئے حوالے کر دیا۔