سینیٹ میں انتخابات ایکٹ ترمیمی بل 2017 اتفاق رائے سے منظور

صدر مملکت کے دستخط کے بعد بل باقاعدہ قانون کی شکل اختیار کرلے گا

جمعہ 17 نومبر 2017 15:27

سینیٹ میں انتخابات ایکٹ ترمیمی بل 2017 اتفاق رائے سے منظور
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 17 نومبر2017ء) قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی انتخابات ایکٹ ترمیمی بل 2017 اتفاق رائے سے منظور کرلیا۔صدر مملکت کے دستخط کے بعد بل باقاعدہ قانون کی شکل اختیار کرلے گا ،ترمیمی بل کے ذریعے انتخابات ایکٹ 2017 میں 7 بی اور 7 سی شامل کی گئی ہیں۔ترمیمی بل کے تحت آئین میں قادیانیوں کی حیثیت تبدیل نہیں ہوگی۔

ختم نبوت پر ایمان نہ رکھنے والے شخص کے غیر مسلم ہونے کی حیثیت برقرار رہے گی۔ ووٹرلسٹ میں درج کسی شخص پر منکر ختم نبوت ہونے کا اعتراض اٹھے تو اسے 15 دن میں طلب کیا جائیگا۔ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ اس بل کے حوالے سے مجھ پر بدنیتی کا الزام لگا، میں مسلمان ہوں کچھ غلط کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا،پہلے بھی اس بل میں احمدی، قادیانی اور لاہوری گروپ کو غیرمسلم قرار دے چکے ہیں، اس بل پر میڈیا نے غلط رپورٹنگ کی ہے،سینٹ میں قائد حزب اختلاف چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ فیض آباد پل کے نیچے مورچہ بنا ہوا ہے کوئی بھی آجائے دھرنا دے اور کسی دوسرے کو کافر قرار دلوائے یہ حکومت کی ناکامی ہے،حکومت جاتی امرا میں بیٹھی ہوئی ہے وزیراعظم ‘ وزیر داخلہ‘ وزیر خارجہ اور وزیر ریلوے سارے وہاں ہیں۔

(جاری ہے)

یہ منظر جو چل رہا ہے یہ ملک کے لئے درست نہیں ہے،اگر ایسی حکومت ہوگی تو پارلیمنٹ یرغمال بنتی رہے گی۔قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا کہ زندہ قوانین میں تبدیلیاں ہوتی ہیں اگر یہ قانون ہی نہ بنایا جائے تو کس کا غلط استعمال ہوگا۔ اس طرح تو پھر فوجداری قوانین کا بھی غلط استعمال ہوتا ہے۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ 1973 کے آئین میں جو قادیانی کی حیثیت تھی وہی برقرار ہے اور 39 سال بعد نئے بل نے قانونا واضح کردیا کہ قادیانیوں کی حیثیت غیر مسلم ہی ہے ۔

جمعہ کو سینیٹ کا اجلاس چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی زیر صدارت ہوا ۔ اجلاس کے دوران وزیر قانون زاہد حامد نے انتخابات ترمیمی بل 2017 منظوری کے لیے پیش کیا جسے اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا۔انتخابات ترمیمی بل 2017 کے نکات کے مطابق احمدیوں کی حیثیت تبدیل نہیں ہوگی، ختم نبوت پر ایمان نہ رکھنے والے کی حیثیت آئین میں پہلے سے درج والی ہوگی۔

ووٹر لسٹ میں درج کسی نام پر سوال اٹھے تو اسے 15 دن کے اندر طلب کیا جائیگا، متعلقہ فرد احلف نامے پر دستخط کرے گا کہ وہ ختم نبوت پر ایمان رکھتا ہے۔متعلقہ فردحلف نامے پر دستخط سے انکار کرے تو غیر مسلم تصور ہوگا اور ایسے فرد کا نام ووٹر لسٹ سے ہٹا کر ضمنی فہرست میں بطور غیر مسلم لکھا جائے گا۔سینیٹ سے منظور ہونے والے بل میں ختم نبوت سے متعلق انگریزی اور اردو کے حلف نامے بھی شامل ہیں،سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ قومی اسمبلی نے انتخابات ترمیمی بل 2017 متفقہ طور پر منظور کیا جب کہ الیکشن بل میں کوئی بدنیتی شامل نہیں تھی۔

زاہد حامد نے کہا کہ ہم سب مسلمان ہیں اور ختم نبوت پر ایمان ہے جب کہ احمدی کی حیثیت آئین کے مطابق غیر مسلم ہی رہے گی۔ڈپٹی چیئرمین سینیٹ عبدالغفور حیدری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ختم نبوت سے متعلق حلف کے بجائے انتخابات بل میں اقرار نامے کے الفاظ آئے تاہم پارلیمنٹ نے اب ختم نبوت کے حلف نامے کو محفوظ کردیا ہے۔سینٹ میں قائد حزب اختلاف چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ آج کے بل میں ووٹ ڈالنے کے لئے آیا ہوں اس بل پر جو ابہام کچھ دنوں سے ہے میں نہیں چاہتا کہ وہ ابہام ختم ہو۔

انہوں نے کہا کہ یہ ہمیں نظر آیا ہے کہ اس میں ذیلی سیکشن 48-2 کو شامل کیا جارہا ہے اس میں پاکستان کے مسلمانوں کے عقیدے پر بے جا شک ڈالا جارہا ہے جس نے کوئی ذاتی دشمنی کا معاملہ بھگتانا ہوگا تو وہ اس کا استعمال کرے گا۔ میں کسی پر بھی الزام لگا سکتا ہوں ذاتی مخالفت کی وجہ سے کسی پر الزام لگائوں تو پندرہ دن کے اندر وہ طلب ہوجائے گا اور پھر اسے اپنے ایمان کی تصدیق کے حلف نامے پر دستخط کرنا ہوں گے۔

توہین رسالت کے الزام کو زمین اور پانی کے جھگڑوں پر لگا دیا جاتا ہے اور پھر موت کی سزا بھی سنا دی جاتی ہے۔ کسی کے ایمان پر شک نہیں کرنا چاہئے مگر کوئی بھی کسی کے خلاف درخواست دے کر اس کے ایمان کو چیلنج کرسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم میں سے کوئی بھی بندگی کا انکار نہیں کرسکتا۔ چار ستمبر 2014کو اپنی تقریر میں کہا تھا کہ دھرنا دینے والے پارلیمنٹ کی کنپٹی پر بندوق رکھ کر استعفیٰ لینا چاہتے ہیں میری تقریر پر دھرنے والوں کو بھی غصہ آیا تھا اور حکومت کو بھی۔

آج پھر فیض آباد پل کے نیچے مورچہ بنا ہوا ہے کوئی بھی آجائے دھرنا دے اور کسی دوسرے کو کافر قرار دلوائے یہ حکومت کی ناکامی ہے۔ حکومت جاتی امرا میں بیٹھی ہوئی ہے وزیراعظم ‘ وزیر داخلہ‘ وزیر خارجہ اور وزیر ریلوے سارے وہاں ہیں۔ یہ منظر جو چل رہا ہے یہ ملک کے لئے درست نہیں ہے۔ اگر ایسی حکومت ہوگی تو پارلیمنٹ یرغمال بنتی رہے گی۔ بڑا مضطرب ہوں گے جس ماحول میں دبائو کے تحت ووٹ لیا جارہا ہے اگر پہلے رابطہ کیا جاتا تو ہم بغیر دبائو کے ووٹ دیتے۔

قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا کہ کوئی بھی قانون مفاہمت کے ذریعے بنتا ہے۔ کوشش کی جائے گی کہ اس قانون کو غلط استعمال نہ کیا جائے۔ قانون انتہا پسندی کا شکار ہوجائے تو اس کے اثرات منفی ہوتے ہیں۔ زندہ قوانین میں تبدیلیاں ہوتی ہیں اگر یہ قانون ہی نہ بنایا جائے تو کس کا غلط استعمال ہوگا۔ اس طرح تو پھر فوجداری قوانین کا بھی غلط استعمال ہوتا ہے۔

اکثر ایک شخص پر درست الزام ہوتا ہے تو اس کے خاندان کے لوگوں کو بھی اس الزام میں شامل کردیا جاتا ہے۔ قوانین اکثریت کی مرضی سے بنتے ہیں غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف بھی قوانین موجود ہیں۔ مولانا عبدالغفور حیدری نے مزید کہا کہ 1973 کے آئین میں جو قادیانی کی حیثیت تھی وہی برقرار ہے اور 39 سال بعد نئے بل سے قانونا واضح کردیا کہ قادیانیوں کی حیثیت غیر مسلم ہی ہے ۔

یاد رہے کہ ختم نبوت کے قانون میں ترمیم کا تنازع اس وقت پیدا ہوا جب حکومت نے سپریم کورٹ کی جانب سے نا اہل قرار دیے جانے والے سابق وزیراعظم نواز شریف کو دوبارہ مسلم لیگ (ن) کا صدر بنانے کی راہ ہموار کرنے کے لیے انتخابی اصلاحات بل 2017 منظور کیا اور یہ بات منظر عام پر آئی کہ اس بل کی منظوری کے دوران ختم نبوت کے حوالے سے حلف نامے کو تبدیل کردیا گیا ہے۔