قومی اسمبلی میں نئی حلقہ بندیوں سے متعلق آئین میں ترمیم کا بل دو تہائی اکثریت سے منظور ، 242 ارکان نے حق ،جمشید دستی نے مخالفت میں ووٹ دیا

تحریک انصاف نے ترامیم واپس لے لیں ،دستی کی ترامیم کثرت رائے سے مسترد کر دی گئیں نئی آئینی ترمیم کے تحت قومی اسمبلی کی272 جنرل نشستیں برقرار رہیں گی، قومی اسمبلی کی پنجاب سی9 نشستیں کم ، بلوچستان کی 3،خیبرپختونخوا کی 5، وفاقی دارالحکومت کی 1نشست بڑھا دی گئی ، فاٹا اور سندھ کی نشستیں برقرار پارلیمانی رہنمائوں کے اجلاس میں ختم نبوتؐکے معاملے پر جو غلط فہمی جنم لے رہی تھی اس کو اتفاق رائے سے حل کیا گیا ،اس پر پورا ایوان مبارکباد کا مستحق ہے، شاہ محمو دقریشی آئین کے تحت مردم شماری کے حتمی نتائج جاری ہونے کے بعد نئی حلقہ بندیاں کی جانا ضروری ہیں، حکومت نے ہمارے تحفظات دور کردیئے ، سید نوید قمر کراچی اور سندھ کا بڑا مسئلہ ہماری جدوجہد سے حل ہو ا، فاروق ستار ، آئینی تقاضا ہے،مردم شماری کے نتائج کے تحت صوبائی اسمبلی کی نشستیں بھی اسی تناسب سے بڑھائی جائیں، آفتاب شیر پائو اور دیگر کا بل پر بحث کے دوران اظہار خیال

جمعرات 16 نومبر 2017 23:03

قومی اسمبلی میں نئی حلقہ بندیوں سے متعلق آئین میں ترمیم کا بل دو تہائی ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 16 نومبر2017ء) قومی اسمبلی میں نئی حلقہ بندیوں سے متعلق آئین میں ترمیم کا بل دو تہائی اکثریت سے منظور کر لیا گیا ، آئینی ترمیم کے حق میں 242جبکہ آزادرکن جمشید دستی نے بل کی مخالفت میں ووٹ دیا۔بل میں تحریک انصاف نے اپنی ترامیم واپس لے لیں جبکہ جمشید دستی کی ترامیم کثرت رائے سے مسترد کر دی گئیں،حلقہ بندیوں سے متعلق نئی آئینی ترامیم کے مطابق قومی اسمبلی کی272 جنرل نشستیں برقرار رہیں گی، آئینی ترمیم میں قومی اسمبلی کی پنجاب سی9 نشستیں کم کردی گئی ہیں جبکہ بلوچستان کی 3،خیبرپختونخوا کی 5، وفاقی دارالحکومت کی 1نشست بڑھا دی گئی ،بل میں فاٹا اور سندھ کی نشستیں برقرار رکھی گئی ہیں۔

تفصیلات کے مطابق جمعرات کو قومی اسمبلی میں نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے آئینی ترمیم کا بل وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے پیش کیا۔

(جاری ہے)

سپیکر قومی اسمبلی نے بل کی شق وارمنظوری کیلئے رائے شماری کرائی،آئینی ترمیمی بل کی شق ون کے حق میں 233جبکہ مخالفت میں ایک ووٹ پڑا،ترمیمی بل کی شق 1میں تحریک انصاف اور آزاد رکن جمشید دستی نے اپنی ترامیم جمع کروائی تھیں، تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی نے حکومتی یقین دہانی کے بعد اپنی ترامیم واپس لے لی جبکہ اسپیکر ایاز صادق نے رائے شماری کے بعد جمشید دستی کی ترامیم کو مسترد کر دیا،بل کی شق 2کے حق میں 235جبکہ مخالفت میں ایک ووٹ پڑا، بل کی شق وار منظوری کے بعد اسپیکر ایاز صادق نے جامع بل کی منظوری کیلئے ایوان میں آئین میں ترمیم کے طریقہ کار کا اعلان کیا۔

اس موقع پر سپیکر ایاز صادق نے بل کی حمایت میں ارکان کو اپنے دائیں طرف موجود گیلری جبکہ بل کی مخالفت کرنے والے ارکان کو اپنے بائیں جانب موجود گیلری میں جانے کی ہدایت کی۔ بعد ازاں بل پر رائے شماری کے بعد سپیکر ایاز صادق نے اعلان کیا کہ بل کے حق میں 242جبکہ مخالفت میں ایک ووٹ دیا گیا ہے۔ آئینی ترمیم کے تحت نئی حلقہ بندیوں کے نتیجے میں پنجاب سے قومی اسمبلی کی 9نشستیں کم کر دی گئی ہیں، جن میں 7جنرل اور 2مخصوص نشستیں شامل ہیں جبکہ بلوچستان کی 3(2 جنرل اور ایک مخصوص)خیبرپختونخوا کی 5نشستیں (4 جنرل اور ایک مخصوص) اور وفاقی دارالحکومت کی ایک جنرل نشست کا اضافہ کر دیا گیا جبکہ نئی آئینی ترمیم کے تحت سندھ اور فاٹا کے ارکان کی تعداد برقرار رکھی گئی ہے۔

حکمران جماعت (ن) لیگ کے علاوہ اس کی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ ضیاء ، مسلم لیگ (ف) ، نیشنل پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی ، جے یو آئی (ف) اور دیگر جماعتوں جبکہ اپوزیشن میں پیپلزپارٹی ، تحریک انصاف ، اے این پی ، جماعت اسلامی ، قومی وطن پارٹی اور فاٹا ارکان نے بھی بل کے حق میں ووٹ دیا ۔قبل ازیں بل پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ایوان میں دو اہم معاملات پر بحث کیلئے یہ اجلاس بلایا گیا ، پارلیمانی رہنمائوں کے اجلاس میں ختم نبوتؐ پر غلط فہمی جو جنم لے رہی تھی اس کو اتفاق رائے سے حل کیا گیا جس پر پورا ایوان مبارکباد کا مستحق ہے ، دوسرا ایشو حلقہ بندیوں کے حوالے سے آئینی ترمیمی بل تھا، آئین میں واضح درج ہے کہ مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں لازمی ہیں ۔

آئین میں واضح درج ہے کہ مردم شماری کے حتمی شائع شدہ اعدادوشمار کے بعد حلقہ بندیاں کی جائیں ، اگر ہم الیکشن آئینی تقاضوں کے مطابق کرنا چاہتے ہین تو پھر الیکشن تاخیر سے ہوتا ہے ، درمیان راستہ نکالنے کیلئے پارلیمانی رہنمائوں کے کئی اجلاس ہوئے جس میں دو جماعتوں نے اعتراضات اٹھائے ۔ پیپلزپارٹی نے معاملہ مشترکہ مفادات کونسل لے جانے کا مطالبہ کیا جبکہ ایم کیو ایم کا خیال تھا کہ ہمارے تحفظات دور کرنے کیلئے دوبارہ کراچی میں مردم شماری کرائے جائے جس پر مشترکہ مفادات کونسل میں ایک فیصد فیصلہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ الیکشن مقررہ وقت پر ہوں اور ساتھ ہی جماعتوں کے تحفظات کو بھی دور کیا جائے ، ہم نے اس حوالے سے مکمل تعاون کیا اور آئندہ بھی تعاون کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ ایم کیو ایم کے مطالبے پر سپیکر آفس میں وزیراعظم کی موجودگی میں بھی بات ہوئی ۔انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر بات ہو چکی ہمارے ہونے یا نہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا ۔

بل ایوان میں پیش ہو چکا ہے اس پر رائے شماری کرائی جائے ، اگر حکومت کے پاس ممبران یہاں موجود ہیں تو یہ حکومت کا مسئلہ ہے ۔ سید نوید قمر نے کہا کہ آئین کے تحت مردم شماری کے حتمی نتائج جاری ہونے کے بعد نئی حلقہ بندیاں کی جانا ضروری ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے مردم شماری کے طریقہ کار اور نتائج پر تحفظات ہیں جن کو ہم نے پارلیمانی ممبران اجلاس میں حکومت کے سامنے رکھا۔

حکومت نے ساری بات مانتے ہوئے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلایا اور وہاں مردم شماری پر بات کی ۔ ہمارا مطالبہ تھا کہ مردم شماری کے نتائج کا تین فیصد آڈٹ ہونا چاہیے مگر مشترکہ مفادات کونسل کے مردم شماری کے نتائج کے ایک فیصد آڈٹ کا فیصلہ کیا ہم نے نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے کم وقت ہونے کی وجہ سے تحفظات کے ابوجود آئینی ترمیمی بل کی حمایت کا فیصلہ کیا ۔

ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ خوشی ہوئی ہے کہ کراچی اور سندھ کا سب سے بڑا مسئلہ بالآخر ہماری جدوجہد کی وجہ سے پاکستان کے سیاسی منظر نامہ پر اجاگر ہوا اور ہم اپنی جدوجہد میں کامیاب ہوئے ۔ ہم نے حال ہی میں کراچی کی حالیہ تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ کیا اور مطالبہ کیا اور کراچی کی آبادی کے حوالے سے اعتراضات اور تحفظات دور کئے جائیں ۔ ہمارا مطالبہ آج بھی یہی ہے کہ اور پاکستان کی سیاسی برادری نے ہمارے مطالبہ کی حمایت کی ۔

کراچی کے بنیادی مسئلہ کو تسلیم کیا گیا ، یہ مسئلہ حل کیا جائے اور کراچی قومی دھارے میں آجائے اور کراچی ترقی کا مرکز بنے گا۔ کراچی اور سندھ کی شہری آبادی کم ہوگنی گئی ، کراچی میں 1998میں بھی مردم شماری کے حوالے سے یہی مسئلہ تھا اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی اس دوران ہماری آواز کو دبا دیا گیا ۔ کراچی کے ساتھ نا انصافی ہوئی اور عوام کہہ رہے ہیں کہ ہمیں دیوار میں چنوا دیا گیا ہے ، ہمارا مطالبہ 10فیصد مردم شماری کا آڈٹ تھا لیکن مشترکہ مفادات کونسل کے 1فیصد کا فیصلہ کیا۔

۔ عوام اس مسئلہ پر عدالت میں جانے کا حق رکھتے ہیں ، مردم شماری درست نہیں ہوگی تو حلقہ بندیاں بھی درست نہیں ہوسکتیں۔مردم شماری پر اتنے سوالات ہیں تو شفاف انتخابات کیسے ہوں گے، سیاسی طور پر ہر انتخابات کے حوالے سے پری پول دھاندلی ہوتی ہے حالیہ مردم شماری کے مطابق گھروں اور بلاکس میں 100فیصد اضافہ ہوا تو پھر آبادی میں 100فیصد اضافہ کیوں نہیں ہوا اور صرف 60فیصد اضافہ ہوا، پانچ فیصد سے مسئلہ حل نہیں ہو گا مسئلے کو کھلا رکھا جائے گا، بل پر ووٹ دیں گے لیکن مردم شماری پر ہمارے تحفظات برقرار رہیں گے۔

مولانا امیر زمان نے کہا کہ ختم نبوت کا بل منظور ہونے پر ساری اسمبلی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، انتخابات (ترمیمی) بل 2017پر جمعیت علماء اسلام حمایت کرتی ہے اور انتخابات کو وقت پر ہونا چاہیے، بلوچستان کے ہر ضلع پر ایک نشست بنائی جائے، ہمارا مطالبہ ہے کہ بلوچستان سب سے محروم اور پسماندہ صوبہ ہے، اس کے ہر ضلع میں قومی اسمبلی کی ایک نشست رکھی جائے۔

صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ تعجب اور افسوس ہوا کہ پارلیمانی رہنمائوں کے پانچ اجلاس ہوئے لیکن ابھی چیمبر میں صرف دو پارٹیوں کے ساتھ وزیراعظم کے ساتھ اجلاس میں بلایا گیا،ختم نبوت کے حوالے سے جو شقیں پچھلے اجلاس میں رہ گئی تھیں آج وہ پرانی شکل میں بحال ہو گئی ہیں، کچھ لوگوں نے ختم نبوت کے معاملے پر اسلام آباد کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور اسلام آباد لاوارث ہے، وزیر داخلہ کو ختم نبوت کے معاملے پر اس انداز میں بات نہیں کرنی چاہیے تھی یہ سب کے ایمان کامسئلہ ہے، چھوٹے صوبوں کے حقوق کے علمدار جو پارٹی بنتی تھی آج وہ الیکشن بل میں تاخیر کیوں کرا رہی ہے، حکومت پانچ اجلاس کے بعد بل منظور کرانے کیلئے بندے پورے نہیں کر سکتے۔

آفتاب شیر پائو نے کہا کہ آج بل پر کچھ پارٹیاں ووٹ دے رہی ہیں اور تحفظات کا اظہار کر رہی ہیںبل پر تاخیر نہیں ہونی چاہیے، آئینی تقاضا ہے،مردم شماری کے نتائج کے تحت صوبائی اسمبلی کی نشستیں بھی اسی تناسب سے بڑھائی جائیں۔ شاہ جی گل آفریدی نے کہا کہ مردم شماری میں فاٹا کی آبادی کم ظاہر کی گئی ہے، آڈٹ سے فاٹا کو فائدہ ملے گا۔نواز یوسف تالپور نے کہا کہ مردم شماری میں سارے سندھ کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔