سندھ ایپکس کمیٹی نے سٹریٹ کریمنلز کیخلاف بڑے آپریشن کے منظوری دیدی

کراچی کے امن پر میں کسی صورت سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، مگر کسی کو بھی انتشار اور افراتفری پھیلانے کی ہر گز اجازت نہیں دی جائے گی، وزیراعلیٰ سندھ اجلاس میں سٹریٹ کرائم کیخلاف بڑے پیمانے پر آپریشن، مدارس کے حوالے سے قانون سازی اور ہائی پروفائل مقدمات بدین منتقل کرنے کی منظوری کراچی کے شہریوں کو سٹریٹ کریمنلز سے نجات دلائینگے، اجلاس میں سائبر کرائم کے لئے پالیسی مرتب کرنے کا فیصلہ لاپتہ افراد کے نام پر ملک کو بدنام بھی کیا جا رہا ہے، جو لوگ خود باہر جا کر غائب ہو گئے ان کی گمشدگی بھی قانون نافذ کرنیوالوں پر ڈالی جاتی ہے، وزیراعلیٰ سندھ رینجرز شہر کے 460 مقامات پر تعینات ہے، رینجرز نے 11 ہزار 124 آپریشن کئے، گرفتار ہونیوالوں نے 7 ہزار افراد کے قتل کا اعتراف کیا، ڈی جی رینجرز کراچی میں رواں سال سٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں اضافہ ہوا۔ جنوری سے نومبر کے دوران 30 ہزار شہریوں سے موبائل فون چھینے گئے، سی پی ایل سی لینڈ گریبنگ کا پیسہ دہشتگردی اور مجرمانہ سرگرمیوں میں استعمال ہوتا ہے، 25 لاکھ افغانی، برمی، بنگالی اور بہاری سٹریٹ کرائمز میں بھی ملوث ہیں، آئی جی سندھ کمیٹی چیف جسٹس سے ملاقات کرکے حکومت سندھ کی جانب سے درخواست کرے ،سٹریٹ کرائم کے حوالے سے عدالتیں بنا ئی جائیں، وزیراعلیٰ سندھ

بدھ 15 نومبر 2017 21:20

سندھ ایپکس کمیٹی نے سٹریٹ کریمنلز کیخلاف بڑے آپریشن کے منظوری دیدی
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 نومبر2017ء) سندھ ایپکس کمیٹی نے اسٹریٹ کریمنلز کیخلاف بڑے آپریشن کے منظوری دیدی ہے۔ اس اہم اجلاس میں وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ، کور کمانڈر کراچی، ڈی جی رینجرز سندھ، آئی جی سندھ اور دیگر حکام شریک ہوئے۔وزیر اعلیٰ سندھ نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اپنے اس پختہ عزم کا عادہ کیا کہ کراچی کے امن پر میں کسی صورت سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، ہمیں کسی کی سیاست پر کوئی اعتراض نہیں مگر کسی کو بھی انتشار اور افراتفری پھیلانے کی ہر گز اجازت نہیں دی جائے گی۔

اجلاس میں سٹریٹ کرائم کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن، مدارس کے حوالے سے قانون سازی اور ہائی پروفائل مقدمات بدین منتقل کرنے کی منظوری بھی دی گئی۔ وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ کراچی کے شہریوں کو سٹریٹ کریمنلز سے نجات دلائیں گے۔

(جاری ہے)

اجلاس میں سائبر کرائم کے لئے پالیسی مرتب کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔اجلاس سے خطاب میں وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے نام پر ملک کو بدنام بھی کیا جا رہا ہے۔

جو لوگ خود باہر جا کر غائب ہو گئے ان کی گمشدگی بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں پر ڈالی جاتی ہے۔ انہوں لاپتہ افراد کی قابل اعتماد فہرست جمع کرانے کی بھی ہدایت کی۔ڈی رینجرز سندھ کا اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے کہنا تھا کہ کراچی میں ہر قسم کے جرائم پر کڑی نظر رکھنے کیلئے رینجرز کو شہر کے 460 مختلف مقامات پر تعینات کیا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ رینجرز نے 11 ہزار 124 آپریشن کئے۔

آپریشنز میں گرفتار ہونے والوں نے 7 ہزار 282 افراد کے قتل کا اعتراف کیا۔ اجلاس میں پیش کی گئی سی پی ایل سی کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں رواں سال سٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں اضافہ ہوا۔ جنوری سے نومبر کے دوران 30 ہزار شہریوں سے موبائل فون چھینے گئے۔ 10 ماہ کے دوران 1200 شہری گاڑیوں اور 23 ہزار شہری موٹر سائیکلوں سے محروم ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق جنوری سے اکتوبر کے دوران شہری 26 ہزار سے زائد فونز سے محروم ہوئے۔

اجلاس میں شہر کی زمینوں پر قبضے کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔ آئی جی سندھ نے بتایا کہ لینڈ گریبنگ کا پیسہ دہشتگردی اور مجرمانہ سرگرمیوں میں استعمال ہوتا ہے۔ صوبے میں غیر قانونی تارکین وطن کی بڑھتی تعداد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی سندھ نے بتایا کہ 25 لاکھ افغانی، برمی، بنگالی اور بہاری یہاں مقیم ہیں جو سٹریٹ کرائمز میں بھی ملوث ہیں۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ یکم نومبر کو 10 مقدمات فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے لیے منظور کئے گئے۔ قانونی کمیٹی نے مزید 28 مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجنے کے لیے سفارش کی ہے۔اجلاس کے آغاز میںسیکریٹری داخلہ سندھ نے گذشتہ اپیکش کمیٹی کے فیصلوں اور ان کے اسٹیٹس پر بریفنگ دی ۔اجلاس میںوزیر قانون، ایڈوکیٹ جنرل اور سیکریٹری داخلہ پر مشتمل تین رکنی کمیٹی قائم کی گئی۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کمیٹی کو ہدایت کی کہ وہ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سے ملاقات کرے اوران سے حکومت سندھ کی جانب سے یہ درخواست کی جائے کہ اسٹریٹ کرائم کے حوالے سے عدالتیں بنا ئی جائیں۔وزیر اعلیٰ نے ہدایت کی کہ کمیٹی اسٹریٹ کرائم کے مقدمات اور کیٹیگریز کی تفصیلات کا ہوم ورک کرکے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے پاس بھیجے اور اگلی اپیکس کمیٹی میں اس حوالے سے ہونے والی پیش رفت کی رپورٹ پیش کی جائے۔

اجلاس میں زمینوں پر غیر قانونی قبضوں کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔اس موقع پر چیف سکریٹری سندھ کا کہنا تھا کہ اب لینڈ روینیو ریکارڈ ڈجیٹلائیز ہوگیا ہے، یہ ریکارڈ باقائدہ پرائیویٹ اور حکومتی لینڈ واضح طور پر بتائے گا۔انہوں نے کہا کہ شہر میں پیشہ ور لینڈ گریبرز موجودہیں جوجعلی پیپرز بنانے کے بھی ماہر ہیں، اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ایسے لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

اس موقع پر آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ سچل گوٹھ، منگھوپیر، سرجانی ٹاؤن، گلستان جوہر اور دیگر علائقوں میں تنظیمی طریے کار سے زمینوں پر قبضے کئے جاتے ہیں۔وزیر ٹرانسپورٹ سندھ کا کہنا تھا کہ جعلی پیپرز بنانے والوں کی نشاندہی ضروری ہے ۔انہوں نے کہا کہ جب سرکا یا پھر پرائیویٹ مالکان جعلی پیپرز لیکر عدالت پہنچتے ہیں تع جعلی پیپرز والے کی فائل اتنی موٹی ہوتی ہے کہ بندہ دیکھ کر سمجھتا ہے کہ کیس الجھ جائے گا۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ یہ بہت ہی سنگین جرم ہے اور اس کے خلاف سخت حکمت عملی بناکر آپریشن کیا جائے۔اجلاس کو بتایا گیا کہ زمینوں پر قبضے کے دھندے میں میں دہشتگرد، منظم جرائم پیشہ افراد ملوث ہیں اور اس مکروہ کاروبار سے حاصل ہونے والا پیسہ دہشتگردی اور مجرمانہ سرگرمیوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ سرکاری اراضی حکومت کے پاس عوام کی امانت ہے جس کی ہر صورت حفاظت کی جائے گی۔

اگر ہم اس امانت کو سنبھال نہیں سکیں تو یہ بہت تکلیف دہ بات ہوگی۔اجلاس میں غیر قانونی تارکین وطن کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔اجلاس کو بتایا گیا کہ سندھ میں 2.5 ملین غیر قانونی تارکین وطن موجود ہیں جن میں افغانی، بنگالی، بہاری، برمی اور دیگر شامل ہیں۔ وزیر اعلی ٰ سندھ نے کہا کہ اگران غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف کارروائی کے لئے سندھ پولیس کو اگر اختیار دیا جائے گا تو غیر قانونی تراکین وطن سے جان چھڑائی جاسکتی ہے ۔

اجلاس میں کہا گیا کہ بہت سے غیر قانونی تارکین وطن دہشت گردی کے واقعات میں بھی ملوث پائے گئے ہیں اور انہیں گرفتار بھی کیا گیا ہے۔اجلاس کو بتایا گیا کہ یکم نومبر 2017 کو 10 مقدمات فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے لیے کو منظور ہوئے ہیں اور سندھ حکومت کی قانونی کمیٹی نے مزید 28 مقدمات کو فوجی عدالتوں میں بھیجنے کے لیے سفارش کی ہے ۔وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ بینکوں کی وارداتوں کے خلاف حکومت نے اہم اقدامات کیے ہیں انہوں نے سکریٹری داخلہ سندھ کو ہدایت کی کہ اسٹیٹ بینک کی گورنر سے ملاقات کرکے ایس او پی پر عمل درآمد کرنے کے لیے بات کی جائے۔

اجلاس کو بتا یا گیا کہ83ہائی پروفائل قیدیوں کو جن میں 52 زیرسماعت مقدمات کے قیدی، 18 خطرناک اور 13 سزا یافتہ قیدیوں کو کراچی سے دیگر شہروں کے جیلوں میں منتقل کیا گیا ہے۔دیگر 137 قیدیوں جن میں (69 یو ٹی پیز، 50 جرائم پیشہ اور 18 سزا یافتہ قیدی) بھی کراچی سے دیگر شہروں کے جیلوں میں منتقل کیئے گئے ہیں، اجلاس کو بتایا گیا کہ سینٹرل جیل سے فرار ہونے والے قیدیوں کے مقدمات بہت سنگین ہیں اور اس معاملے کی انتہائی پروفیشنل طریقے کار سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ منشیات فروشوں، گھوسٹ ملازمین کے خلاف کارروائی، کی جائے گی کار / بائیک چور کیسزکو سنجیدگی سے نمٹا جائے گا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ 1038 فور وہیلرز، 18337 ٹو وہیلرزاور 17184 موبائل فون چھیننے / چوری کے کیسز اس سال درج ہوئے ہیں۔ ڈی جی رینجرز نے کہا کہ رینجرز نے 1088 اسٹریٹ کرمنلزاور 472 ڈکیت گرفتار کیے ہیں۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ موٹر سائیکلوں کی اگلی نمبر پلیٹ بڑی اور نمبرواضح ہونا چاہیے اور اس حوالے سے جلد پالیسی بھی وضع کرلی جائے گی۔