دنیا میں دہشت گردانہ حملوں میں اضافہ، ہلاکتوں میں کمی

شام، پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردانہ حملوں کے باعث ہونے والی ہلاکتوں میں نمایاں کمی دیکھی گئی،رپورٹ

بدھ 15 نومبر 2017 18:16

نیویارک(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 نومبر2017ء) عالمی دہشت گردی انڈیکس نے بتایاہے کہ گزشتہ برس دنیا کے زیادہ ممالک میں دہشت گردانہ حملے دیکھے گئے، تاہم ہلاکتوں کی تعداد میں کمی نوٹ کی گئی۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق عالمی دہشت گردی انڈیکس کی بدھ کو جاری کی گئی رپورٹ میں کہاگیاکہ یہ مسلسل دوسرا برس ہے، جب دنیا بھر میں دہشت گردانہ حملوں کی نتیجے میں ہلاکتوں میں کمی دیکھی گئی ہے، تاہم اس انڈیکس میں بتایا گیا کہ گزشتہ برس دہشت گردانہ حملوں سے زیادہ تعداد میں ممالک متاثر ہوئے ہیں۔

آسٹریلیا کے ادارہ برائے معاشیات اور امن کی جانب سے جاری کردہ اس انڈیکس میں کہا گیا کہ 2014ء دہشت گردانہ حملوں سے ہونے والی ہلاکتوں کا نکتہ عروج تھا۔ گزشتہ برس شدت پسندانہ حملوں کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتیں 25 ہزار چھ سو 73 رہیں، جو 2014ء کے مقابلے میں 22 فیصد کم ہیں۔

(جاری ہے)

اس انڈیکس کے مطابق شام، پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردانہ حملوں کے باعث ہونے والی ہلاکتوں میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔

گلوبل ٹیرارزم انڈیکس کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس 77 ممالک ایسے تھے، جہاں کم از کم ایک خون ریز حملہ ہوا۔ یہ تعداد گزشتہ 17 برس کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔اس انڈیکس کے مطابق شدت پسندی کے خلاف جنگ میں یہ بات ایک مثبت موڑ کی حیثیت رکھتی ہے کہ اس سے جڑے دہشت گردانہ واقعات میں ہلاکتوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔اس بابت سب سے زیادہ بہتری نائجیریا میں دیکھی گئی، جہاں گزشتہ برس شدت پسند تنظیم بوکوحرام کے حملوں میں ہونے والی ہلاکتوں میں 82 فیصد کمی آئی۔

تاہم پچھلے سال عراق میں اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں کے حملوں میں 40 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔اس انڈیکس میں دہشت گردی کے پھیلاؤ میں اضافے کو ’پریشان کن‘ قرار دیا گیا ہے۔ انڈیکس کے مطابق سن 2016 میں سن 2015 کے مقابلے میں دہشت گردی کے شکار ہونے والے ممالک میں قریب ایک درجن کا اضافہ ہوا۔ اس انڈیکس میں خبردار کیا گیا ہے کہ شام اور عراق سے پسپا ہونے والے جہادی دیگر ممالک میں شدت پسندانہ گروپوں کا حصہ بن سکتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس بابت افغانستان کی صورت حال ’پیچیدہ‘ رہی، جہاں طالبان کی جانب سے عام شہریوں پر حملوں میں کمی مگر سکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ دیکھا گیا۔انڈیکس میں کہا گیا ہے کہ یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کیلئے پچھلا سال سب سے زیادہ خون ریز رہا۔

متعلقہ عنوان :