ملک میں کسی ٹیکنوکریٹ حکومت کی کوئی گنجائش نہیں ، مجھ سمیت سب کابلا رعایت احتساب ہونا چاہئے ، چیئرمین سینیٹ

احتساب کا موجودہ قانون درست، کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں،70 سال سے ملک میں صدارتی اور پارلیمانی نظام کے حوالے سے بحث جاری ہے دور آمریت میں صدارتی نظام کے تجربے ناکام رہے صوبوں کو مضبوط کئے بغیر نا ملک مستحکم ہوسکتا ہے نہ ہی نظا م طویل عرصے تک چل سکتا ہے، سیاستدانوں کی ناکامی کو جمہوریت سے نتھی نہیں کیا جاسکتا ،قوموں کی بھلائی کے لئے جمہوریت ہی بہتر نظام ہے ،آئین کے بغیر ملک اور ملک کے بغیر آئین نامکمل ہے چیئرمین سینٹ رضا ربانی کا انگلش اسپیکنگ یونین آف پاکستان کے تحت منعقدہ تقریب سے خطاب

پیر 13 نومبر 2017 21:12

ملک میں کسی ٹیکنوکریٹ حکومت کی کوئی گنجائش نہیں ، مجھ سمیت سب کابلا ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 13 نومبر2017ء) چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ سیاستدانوں کی ناکامی کو جمہوریت سے نتھی نہیں کیا جاسکتا ،قوموں کی بھلائی کے لئے جمہوریت ہی بہتر نظام ہے ،آئین کے بغیر ملک اور ملک کے بغیر آئین نامکمل ہے ، احتساب سب کا ہونا چاہئے ،کسی کے ساتھ رعایت نہیں ہونی چاہیے اور مجھ سمیت جو بھی کرپشن کریں اسے قرار واقعی سزا دی جائے ،انہوں نے کہا کہ یہ بد قسمتی کی بات ہے کہ موجودہ احتساب قانون میں ترمیم کی بات کی جارہی ہے ،موجودہ احتساب قانون درست ہے اس میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں، سال سے یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ صدارتی نظام ہونا چاہیے یا پارلیمانی ،لیکن دور امریت میں صدارتی نظام کا بھی تجربہ کیا گیا جو 1962 میں دور ایوب میں ناکام ہوا ،صدارتی ملک کے مفاد میں نہیں اس سے بظاہر مرکز مضبوط نظر آتا ہے ،لیکن حقیقت میں ایسا نہیں اور صوبوں کو مضبوط کئیے بغیر نا ملک مستحکم ہوسکتا ہے نہ ہی نظا م طویل عرصے تک چل سکتا ہے۔

(جاری ہے)

وہ پیر کو یہاں ایک مقامی ہوٹل میں انگلش اسپیکنگ یونین آف پاکستان کے تحت منعقدہ تقریب سے خطاب اور ممبران کے سوالوں کے جوابات دے رہے ہیں،اس موقع پر ای ایس یو پی کے صدر عزیز میمن ،سنئیر وائس چئیرمین بہرام دیاواری ،سیکریٹری جنرل مجید عزیز ،کلیم فاروقی ودیگر نے بھی خطاب کیا،تقریب میں برطانیہ ،جاپان ودیگر ملکوں کے سفارت کاروں اور اعلیٰ شخصیاتنے شرکت کی،چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا کہ احتساب سب کا ہونا چاہئے ،کسی کے ساتھ رعایت نہیں ہونی چاہئیے اور مجھ سمیت جو بھی کرپشن کریں اسے قرار واقع سزا دی جائے ،انہوں نے کہا کہ یہ بد قسمتی کی بات ہے کہ موجودہ احتساب قانون میں ترمیم کی بات کی جارہی ہے ،موجودہ احتساب قانون درست ہے اس میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں ،ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ 70 سال سے یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ صدارتی نظام ہونا چاہیے یا پارلیمانی ،لیکن دور امریت میں صدارتی نظام کا بھی تجربہ کیا گیا جو 1962 میں دور ایوب میں ناکام ہوا ،صدارتی ملک کے مفاد میں نہیں اس سے بظاہر مرکز مضبوط نظر آتا ہے ،لیکن حقیقت میں ایسا نہیں اور صوبوں کو مضبوط کیے بغیر نا ملک مستحکم ہوسکتا ہے نہ ہی نظا م طویل عرصے تک چل سکتا ہے،انہوں نے کہا کہ یہ خوش آئند بات ہے کہ موجودہ اسمبلی اپنی مدت پوری کرنے جارہی ہے اور اس سے قبل جو اسمبلی 2008 میں وجود میں آئی تھی اس نے اپنی مدت پوری کی ،انہوں نے ایک سوال پر کہا کہ حکومتوں کے قیام کے لئے آئین میں دئیے گئے طریقے کار وضح ہیں ،کسی ٹیکنوکریٹ حکومت کی کوئی گنجائش نہیں ،ملک کی منتخب قومی اسمبلی اپنا لیڈر منتخب کرتی ہے جو حکومت تشکیل دیتا ہے اور اس کے بعد اسمبلی کی مدت پوری ہونے تک 3 مہینے تک نگراں حکومت ذمہ داری سنبھالتی ہے جو انتخابات کراکر چلی جاتی ہے ،ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو ملک کے سول مارشل لائ ایڈمنسٹریٹر تھے،لیکن کیوں کہ اس وقت ملک میں مارشل لائ نافذ تھا اس لئے حکومت سنبھالنے کے لئے مارشل لائ ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالنا ضروری تھا،انہوں نے کہا کہ من پسند لوگوں کو اقتدار میں لانے کے لئے ایک سابق آمر نے ملک میں انتخابات میں حصہ لینے والوں کے لئے گریجویشن کی شرط عائد کی تھی جو کسی طرح مناسب نہیں ہے ،کیونکہ کراچی اور سندھ میں جو انتخابات ہوتے ہیں اس میں ہر کسی کو حصہ لینے کی آزادی ہونی چاہیے ،انہوں نے کہا کہ ملک میں سول اور ملٹری بیورو کریسی کا ہمیشہ کنٹرول رہا اور بیورو کریسی خود کو سب سے زیادہ مضبوط سمجھتی ہے ،لیکن جمہوری نظام میں آئین ،پارلیمنٹ بالا دست ہے،انہوں نے کہا کہ کسی این آر او کی کو ئی گنجائش نہیں جس نے بھی جرم کیا ہے اسے سزا ملنی چاہئیے ،ہماری بد قسمتی ہے کہ ملک میں دو قوانین چل رہے ہیں ،بڑ ے آدمی کے لئے قانون اور ہے اور چھوٹا آدمی کوئی جرم کرے تو اسے فورا گرفت میں لے لیا جاتا ہے ،انہوں نے کہا کہ بعض مواقوں میں ملک کی عدلیہ نے فوجی مداخلت کو جائز قرار دیا جو کسی طرح درست نہیں ،ایک آمر نے اپنے پاس سی ای او آرمی چیف اور صدر مملکت کے عہدے اپنے پاس رکھے ،بلکہ وہ اس سے بڑھ کر تینوں مسلح افواج کے سربراہ بھی بن گئے تھے یہ کسی طرح قابل قبول نہیں ،انہوں نے کہا کہ ہماری ملک میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جب بھی کوئی منتخب حکومت اقتدار میں آئی اسے یرغمال بنانے کی کوشش کی گئی اور حکومت کو آزادانہ کام کرنے نہیں دیا گیا ،لیکن 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد کافی صورتحا ل میں بہتری آئی ہے اور تمام اداروں کی حدود مطئین کردی گئی ہے ،یہ بھی کوشش کی جا ہے کہ 18 ویں ترمیم کو ناکام بنایا جائے،لیکن ایسی سوچ رکھنے والوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑ ے گا۔