قائمہ کمیٹی منصوبہ بندی و ترقی کا کوئٹہ ماس ٹرانزٹ منصوبہ کے خدو خال پر عدم اطمینان کا اظہار

منصوبہ کی فزیبلٹی کا عمل،کے ٹی بندر منصوبیکیلئے سندھ حکومت،متعلقہ وفاقی وزارتوں اور محکمہ جات کے مشاورتی عمل کو تیز کیا جائے ، منصوبے میں 70روپے ٹکٹ کی قیمت بہت زیادہ ہے، بہتر ہے بندہ ٹیکسی پر چلا جائے، کمیٹی 48.5 کلومیٹر ٹریک پر 68 کروڑ 72 کروڑ ڈالر سے زیادہ لاگت آئے گی، منصوبے کیلئے چینی بینک سے قرضہ لیا جائے گا، قرض پر تین فیصد کی شرح سے سود ادا کرنا پڑے گا، بلوچستان حکومت اور چینی کمپنی کمیونیکیشن کنسٹرکشن کے درمیان ابتدائی معائدہ طے پا چکا ہے، ابھی تک فزیبیلٹی اسٹڈی اور پی سی ون تیار نہیں کیا جا سکا، منصوبہ مکمل ہونے پر ہر مسافر سے 70 روپے ٹکٹ وصول کی جائے گی، منصوبے کے تحت پہلے سے موجود ٹریک کو بھی اپ گریڈ کیا جائے گا،بلوچستان منصوبہ بندی و ترقی حکام

پیر 13 نومبر 2017 17:40

اسلا م آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 13 نومبر2017ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی منصوبہ بندی و ترقی نے کوئٹہ ماس ٹرانزٹ منصوبہ کے خدو خال پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہاکوئٹہ ماس ٹرانز ٹ منصوبہ کی فزیبلٹی کا عمل تیز کرنے اور کے ٹی بندر منصوبے کے لیے سندھ حکومت اور متعلقہ وفاقی وزارتوں اور محکمہ جات کے مشاورتی عمل کو تیز کیا جائے ،اس منصوبے میں 70روپے ٹکٹ کی قیمت بھی بہت زیادہ ہے، اس سے بہتر ہے بندہ ٹیکسی پر چلا جائے،بلوچستان کے منصوبہ بندی و ترقی حکام نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ 48.5 کلومیٹر ٹریک پر 68 کروڑ 72 کروڑ ڈالر سے زیادہ لاگت آئے گی، منصوبے کیلئے چینی بینک سے قرضہ لیا جائے گا، قرض پر تین فیصد کی شرح سے سود ادا کرنا پڑے گا، بلوچستان حکومت اور چینی کمپنی کمیونیکیشن کنسٹرکشن کے درمیان ابتدائی معائدہ طے پا چکا ہے، تاہم ابھی تک فزیبیلٹی اسٹڈی اور پی سی ون تیار نہیں کیا جا سکا، منصوبہ مکمل ہونے پر ہر مسافر سے 70 روپے ٹکٹ وصول کی جائے گی، منصوبے کے تحت پہلے سے موجود ٹریک کو بھی اپ گریڈ کیا جائے گا۔

(جاری ہے)

کمیٹی نے ۔پیر کو سینیٹ قائمہ کمیٹی منصوبہ بندی ترقی واصلاحات کے چیئرمین سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے کوئٹہ ماس ٹرانز ٹ منصوبہ کی فزیبلٹی کا عمل تیز کرنے اور کے ٹی بندر منصوبے کے لیے سندھ حکومت اور متعلقہ وفاقی وزارتوں اور محکمہ جات کے مشاورتی عمل کو تیز کرنے کی ہدایت دی۔ حکام نے آگا ہ کیا کہ کوئٹہ ماس ٹرانزک منصوبہ48کلومیٹر پر مشتمل ہے۔

فی مسافر ٹکٹ 70روپے اور منصوبہ 3سالوں میں مکمل ہوگا۔ ریل گاڑی کے علاوہ بس ٹرانزک منصوبہ بھی زیر غور ہے۔ ممبران کمیٹی نے کہا کہ70 روپے فی ٹکٹ مہنگا ہے۔ کوئٹہ اور گردونواح اور ٹریک علاقوں میں موجود آبادیاں کے اعداد وشمار بنائے جائیں۔ ریلوے ٹریک کی گنجان آبادیوں سے گزرتا ہے۔ حکام نے آگا ہ کیا کہ حکومت بلوچستان اور چائنہ کمیونیکیشن کمپنی کے درمیان مفاہمتی یاداشت کے بعد معاہدہ ہوگا۔

زمین کی خریداری ، بجلی کی فراہمی اور دوسرے ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔ ریلوے حکام نے تجویز دی ہے کہ موجودہ ٹریک کو دوبارہ بنایا جائے۔ کمیٹی نے سفارش کی کہ منصوبے ذمہ داران منصوبہ بندی و ترقی اصلاحات کی وزارت سے مشاورت کے بعد وزارت ریلوے سے بھی مذاکرت کرکے ایک ماہ میں رپورٹ دے۔ کے ٹی بندر کے بارے میں بتایا گیا کہ 2025تک منصوبہ مکمل ہوجائے گا۔

2025تک 14کوئل پاور پراجیکٹ لگائے جائیں گے جس سے 6ہزار میگاواٹ بجلی پیداہوگی۔ پہلے حصے میں 1320میگاواٹ بجلی پلانٹ پیداوار دے گا۔ ریلوے لائن تھر کوئل سے کے ٹی بندر تک تعمیر ہوگی اور کول جے ٹی کی بھی تعمیر کی جائے گی۔ سینیٹر کریم احمد خواجہ کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ بندر گاہ نہیں جے ٹی بن رہی ہے۔ سینیٹر کریم احمد خواجہ نے کہا کہ 1993کی بینظیر بھٹو حکومت میں کے ٹی بندر منصوبے کی فزبلٹی رپورٹ آئندہ اجلاس میں دی جائیں۔

کمیٹی نے وزارت دفاع کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا ۔جس میں وزارت دفاع نیول چیف کو کے ٹی بندر کے بارے میں معلومات وزیر اعلی سندھ کو فراہم کریں گے۔ وزارت منصوبہ بندی و ترقی اصلاحات نے بتایا کہ چھٹی جے سی سی اجلاس میں سندھ حکومت کی درخواست پر یہ منصوبہ پاک چین اقتصادی راہداری میں شامل ہوگیا ہے۔ کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز محسن لغاری ، آغاشاہزیب درانی، کریم احمد خواجہ ، نوابزادہ سیف اللہ مگسی کے علاوہ سندھ و بلوچستا ن کے متعلقہ محکموں کے اعلی حکام نے شرکت کی۔