حکومت پانی کی قلت اور زہریلے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے تدارک کے لئے کوئی پالیسی بنائے ، ملک میں ڈھائی لاکھ بچے ڈائریا کی بیماری میں مبتلا اور 50فیصد لوگ آلودہ پانی کی وجہ سے بیمار ہیں ، منرل واٹر بھی جب تصدیق کرائی جاتی ہے تو اس کے بارے میں علم ہوتا ہے کہ وہ بھی زہریلا ہے ، ، خشک سالی میں جس حالت میں پانی مل رہا ہے اس پر ہنگامی حالت نافذ کی جانی چاہیے

پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمان کا ایوان بالا میں پانی کی قلت اور زہریلے پانی سے پیدا بیماریوں بارے تحریک التوا پیش کرتے ہوئے اظہار خیال

منگل 7 نومبر 2017 22:17

حکومت  پانی کی قلت اور زہریلے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں  کے تدارک ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 07 نومبر2017ء) سینیٹ میں پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ حکومت پانی کی قلت اور زہریلے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے تدارک کے لئے کوئی پالیسی بنائے ، ملک میں اڑھائی لاکھ بچے ڈائریا کی بیماری میں مبتلا ہیں اور 50فیصد لوگ آلودہ پانی کی وجہ سے بیمار ہیں ، منرل واٹر بھی جب تصدیق کرائی جاتی ہے تو اس کے بارے میں علم ہوتا ہے کہ وہ بھی زہریلا ہے ، نیسلے اور اکوافینا غیر محفوظ ہیں ، خشک سالی میں جس حالت میں پانی مل رہا ہے اس میں حکومت کو اس صورت میں ہنگامی حالت نافذ کرنی چاہیے ۔

منگل کو ایوان بالا میں پانی کی قلت اور زہریلے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے بارے میں تحریک التوا پیش کرتے ہوئے شیر ی رحمان نے کہاکہ یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق 2025میں پاکستان ملکی خشک سالی کا شکار ہوجائے گا ، کراچی میں پانی کی صورتحال بہت پریشان کن ہے ، بارشوں کا پانی جمع کرنے کی کوئی سکیم نہیں ہے ، ٹیوب ویل کا متبادل پورے ملک میں نہیں ہے ، کوئی سکیم نہیں ہے ، 2025میں زمین میں موجود پانی ختم ہو جائے گا۔

(جاری ہے)

پاکستان زرعی ملک ہے لیکن اب بھی لاسز 40فیصد ہوگئے ہیں ، اس طرح پانی کا نقصان ہورہا ہے ، ملک میں واٹر پالیسی ہی نہیں ، اگر پالیسی بنے گی تو حکومت ، ادارے پانی محفوظ کرنے کا سوچیں گے ، واٹر ایمر جنسی ڈکلیئر کی جائے ، 2003سے انڈیا ،بنگلہ دیش ، سری لنکا ، نیپال میں واٹر پالیسی موجود ہے ، ان کی بارشوں کا معاملہ ہے تو ہم گلیشئرسے فائدہ اٹھا سکتے ، ہمارا دریا کابل اور انڈیا پر منحصر ہے ۔

پانی کے لحاظ سے حکومت کا جی ڈی پی 2فیصد بھی نہیں ہے ، اپنی فصل کیئے مسائل نہ چھوڑ جائیں ، ہسپتالوں میں 50فیصد مریض پانی کی وجہ سے ہیں ، یہاں شارٹ ،میڈیم اور لانگ پالیسی بنائی جائے ۔ اس سلسلے میں کمیٹی آف وی ہول میں معاملہ اٹھایا جائے ۔ آئی ایم ایف کے مطابق ہم دنیا کا تیسرا زیادہ پانی کا بدترین استعمال ہو رہا ہے ۔ آبی ذکائر اگر بڑے نہیں تو چھوٹے ڈیم بنانے ہوں گے ۔

واٹر کینال اور پانی کے ذخائر آسکتے ہیں ۔ کسی زمانے میں پاکستان کا کینالسسٹم بہت بہترین تھا اب بدترین ہے ۔ سینیٹر سعود مجید نے کہا کہ پوری پارلیمنٹ کو اس پر بحث کرنی چاہیئے اس کے بعد واٹر پالیسی بنانی چاہیے ، ہم نے واٹر پالیسی نہیں بنائی ۔ ستر سالوں سے جس طرح پانی دیتا تھا اس طرح اب بھی ہے ، کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ۔ سب سے بڑا مسئلہ جی ڈی پی کے ساتھ دیکھتے ہیں ۔

آبادی کے پھیلائو کے ساتھ پانی کا ضیائع بڑھ رہا ہے ۔ اگر آبادی اسی طرگ تیزی سے بڑھتی رہی تو پانی کا معاملہ جتنا حل کریں نہ آسکے گا ۔ ڈیم بنانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا ، ہمیں ہنگامی طور پر کام کرنا ہوگا ، دوسرے ڈیموں کیساتھ کالا باغ بھی بنانا ہوگا ، اب سمندر میں پانی نہیں جا رہا ، اس سے ماحولیات پر اثر پڑ رہا ہے ۔ سندھ طاس معاہدے ایک ڈکٹیٹر کی وجہ سے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں ۔

سندھ طاس معاہدے کی وجہس ے ستلج ، بیاس اور راوی میں پانی نہیں آرہا اور مشرقی پنجاب میں صورتحال بدترین ہے ، شہرے بڑے ہوگئے ہیں ، پانی ریچارج نہیں ہورہے ، اگر کھارا پانی مل گیا تو پھر مسئلہ بن جائے گا ۔ ایر گیشن سسٹم صوبوں کے پاس ہے ، پینے کا پانی صوبوں کا مسئلہ ہے ۔ فیڈرل صوبے سے مل کر بڑی بستیوں اور چھوٹے شہروں میں پینے کا پانی بہت بڑا مسئلہ ہے اس کیلئے حکومت منصوبے بنائے تاکہ انہیں پانی مل سکے اس کیلئے انٹرنیشنل ڈونر کیساتھ رابطہ کرنے اور صوبوں کیساتھ مل کر منصوبے بنائے ۔

متعلقہ عنوان :