ٹیکس مقدمات سننے کے لئے الگ سے عدالتوں کے قیام کی ضرورت نہیں ،ْوزیر مملکت بلیغ الرحمن

ادارے کیوں کمزور اور شخصیات کیوں مضبوط ہو رہی ہیں ہمیں عدل و توازن پر مبنی نظام لانا ہو گا ،ْاراکین سینٹ

پیر 6 نومبر 2017 21:04

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 06 نومبر2017ء)وزیر مملکت برائے داخلہ انجینئر بلیغ الرحمن نے کہا ہے کہ ٹیکس مقدمات سننے کے لئے الگ سے عدالتوں کے قیام کی ضرورت نہیں جبکہ اراکین سینٹ نے کہا ہے کہ ادارے کیوں کمزور اور شخصیات کیوں مضبوط ہو رہی ہیں ہمیں عدل و توازن پر مبنی نظام لانا ہو گا۔ پیر کو سینٹ میں اجلاس کے دوران سینیٹر عتیق شیخ نے تحریک پیش کی کہ یہ ایوان ملک میں ٹیکس مقدمات کو فوری نمٹانے اور ٹیکس دہندگان کے حقوق کے تحفظ کے لئے خود مختار نیشنل ٹیکس عدالتوں کے قیام کی ضرورت ہے، کو زیر بحث لائے۔

اپنی تحریک پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ٹیکس وصول کرنے والا محکمہ خود ہی سارے امور سر انجام دیتا ہے، اپیل بھی ان کے پاس ہی جاتی ہے، وہی اس پر فیصلہ کرتے ہیں جس سے انصاف نہیں ہو پاتا، دنیا کے مختلف ممالک میں ٹیکس کی الگ عدالتیں ہیں، یہاں بھی قائم کی جائیں۔

(جاری ہے)

سینیٹر سردار اعظم موسیٰ خیل نے کہا کہ وہ تحریک کی حمایت کرتے ہیں۔

سینیٹر عثمان کاکڑ نے بھی تحریک کی تائید کی۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ ہم گیارہ ساڑھے گیارہ لاکھ ٹیکس دہندگان سے آگے نہیں بڑھ سکے، ٹیکس کے حوالے سے الگ عدالتیں ہونی چاہئیں۔ سینیٹر نعمان وزیر نے کہا کہ ٹیکس سسٹم بہتر ہو گا تو روزگار کے مواقع بڑھیں گے، موجودہ ٹیکس دہندگان کو ہی مزید تنگ کیا جاتا ہے، 60 فیصد ٹیکس 25 ہزار لوگوں اور کمپنیوں سے آتا ہے، ایف بی آر کو اتھارٹی میں تبدیل کیا جائے۔

سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ یہ تکنیکی کام ہے، عام ججوں کے ذریعے ٹیکس کے معاملات نمٹانا آسان ہے۔ بحث سمیٹتے ہوئے وزیر مملکت برائے تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت انجینئر بلیغ الرحمن نے کہا کہ ٹیکس کے حوالے سے مقدمات سننے کے لئے کئی فورمز موجود ہیں، ایف بی آر میں بھ یجائزہ لیا جا سکتا ہے، ایپلٹ بنچز بھی کام کر رہے ہیں، ان کی 20 برانچیں موجود ہیں، الگ سے عدالتیں بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔

اجلاس کے دوران ریاستی اداروں کے کردار اور ان کے اختیارات کی تقسیم کے حوالے سے بحث حصہ لیتے ہوئے ایم کیو ایم کی سینیٹر خوش بخت شجاعت نے کہا ہے کہ پارلیمان اتنی کمزور ہے کہ جو چاہتا ہے جب چاہتا ہے اس پر چڑھائی کر دیتا ہے اور جمہوری قوتوں کو پامال کیا جاتا ہے، پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے اور دوسرے اداروں کا نکتہ نظر بھی سنا جائے، ادارے کیوں کمزور اور شخصیات مضبوط ہو رہی ہیں بچوں اور بچیوں سے زیادتیوں اور ناروا سلوک کے واقعات ہو رہے ہیں اور ہم بے بس ہیں۔

سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ اشرافیہ منرل واٹر پیتی ہے جبکہ عوام گندا پانی پینے پر مجبور ہیں، اشرافیہ کے سکول، ہسپتال، پارک سمیت ہر چیز الگ اور عوام سے مختلف ہے۔ اسلام آباد سمیت بڑے شہروں میں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں چلتی ہیں، ان کو پکڑنے والا کوئی نہیں، ان گاڑیوں پر کس کا ٹیگ لگا ہوتا ہے، اس معاملے پر کمیٹی آف دی ہول بنائی جائے۔ سینیٹر بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ مغرب کا پارلیمانی نظام تو ہم نے اختیار کر لیا لیکن ہمارا معاشرہ اس کے لئے تیار نہیں تھا، ہمیں عدل اور توازن پر مبنی نظام لانا ہو گا۔

اجلاس کے دور ان سینیٹر بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کی جانب سے وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی میں وائس چانسلر کی خالی آسامی سے متعلق اٹھائے گئے معاملے کا جواب دیتے ہوئے انجینئر بلیغ الرحمن نے کہا کہ وفاقی اردو یونیورسٹی کئی مسائل کا شکار ہے، معاملات اتنے بہتر نہیں ہے، ایک ذمہ دار ڈاکٹر ظفر اقبال پر الزامات تھے، جسٹس حازق الخیری معاملات کو دیکھ رہے تھے، انہوں نے ایک رپورٹ دی جس کو کمیٹی زیر غور لائی اور الزامات کو درست قرار دیا۔

ہائی کورٹ نے انہیں ان کی رٹ پر بحال کر دیا جس کے بعد انہوں نے ڈاکٹر سلیمان سے جا کر فزیکل پوزیشن لیا، اس میں کچھ کشیدگی ہوئی، یونیورسٹی سینٹ کی میٹنگ سے ایک روز قبل انہوں نے اطلاع دی کہ وہ دل کے دورے کی وجہ سے میٹنگ میں حاضر نہیں ہو سکتے۔ 11 اکتوبر 2017ء کو یونیورسٹی کے رجسٹرار نے مطلع کیا کہ ان کی طبیعت بہتر ہے اور وہ کام کر رہے ہیں، دوبارہ میٹنگ کال کی گئی، 18 اکتوبر 2017ء کو قومی اسمبلی اجلاس میں انہوں نے شرکت کی۔

وہاں انہوں نے کچھ نامناسب الفاظ کہے جس پر تحریک استحقاق کا معاملہ چل رہا یہ، 19 اکتوبر کو یونیورسٹی سینٹ کے اجلاس میں وہ کہنے کے باوجود وہ نہیں آئے۔ اجلاس کے دور ان سینیٹر سعود مجید کی جانب سے دریائے ستلج کا پانی خشک ہونے، جسے دوبارہ بھرا نہیں جا رہا سے متعلق معاملے کا جواب دیتے ہوئے وزیر مملکت بلیغ الرحمن نے کہا کہ دریائے ستلج کا پانی خشک ہونے کی بات درست ہے، سندھ طاس معاہدے کے تحت تین دریا بھارت کو دیئے گئے تھے، یہ بد قسمتی ہے کہ پانی نہ ہونے سے اس علاقے کی تہذیب و تمدن ختم ہو رہا ہے، یہ مسئلہ لمحہ فکریہ ہے، جو دریا بھارت کو دیئے گئے تھے ان کے حصے کا پانی لنک کینال سے ملنا تھا اور یہ مل بھی رہا ہے، وفاق واٹر شیئرنگ کرتا ہے، صوبوں کو اس بات کا خیال کرنا ہوتا ہے کہ وہ ریور چارجنگ کے لئے پانی دیں۔

وفاقی حکومت ارسا کے ذریعے اپنا کام کر رہی ہے،تکنیکی خامیاں اس میں موجود ہیں کہ اگر دریا کو بھریں گے تو پانی نہروں کے لئے نہیں ةو گا، شہروں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے آبی ذخائر یا ڈیم بنانے کی ضرورت ہے، دریائے ستلج کے حوالے سے اس طرح کی کوئی تجویز زیر غور ہے۔ امی اہمیت کے معاملے پر بات کرتے ہوئے سینیٹر حافظ حمد اللہ نے کہا کہ چند ماہ قبل پانامہ لیکس کے بعد ملک میں سیاسی زلزلہ آ گیا اور ایک وزیراعظم جس کا نام پانامہ لیکس میں نہیں تھا اس کو گھر بھیج دیا گیا لیکن ایک سابق وزیراعظم شوکت عزیز جس کا نام پیراڈائز لیکس میں آیا ہے اس سے کوئی حساب کتاب نہیں مانگ رہا۔

انہوں نے کہا کہ شوکت عزیز کو ایک آمر اپنی سرپرستی میں لایا، وہ آمر کمر درد کا بہانہ بنا کر ملک سے فرار ہے اور شوکت عزیز کو بھی کوئی پوچھنے والا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک قرارداد منظور کرنی چاہیے جس میں زور دیا جائے کہ اقتدار کا راستہ عوام سے ہو کر گزرتا ہے تاکہ آمروں کے منہ پر طمانچہ رسید ہو۔ اجلاس کے دور ان سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ بلوچستان میں تین خواتین کو لاپتہ کرنے کا معاملہ ایوان بالا میں اٹھایا گیا تھا۔

یہ معاملہ حل کرنے کا کریڈٹ چیئرمین سینٹ اور ارکان کو جاتا ہے۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ اس کا کریڈٹ سارے ایوان کو جاتا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ انڈے، ٹماٹر، پیاز، سبزی اور پھلوں سمیت عام اشیائے ضروریہ کی قیمتیں عوام کی قوت خرید سے باہر ہو چکی ہیں، حکومت اس کا نوٹس لے۔ انہوں نے کہا کہ فارم ہائوسز ایسے لوگوں کو الاٹ کئے گئے ہیں جو ان فارم ہائوسز میں سبزیاں نہیں اگاتے۔ اگر سبزیاں اگائی جاتیں تو اسلام آباد میں ان کی قیمتیں کم ہو سکتی تھیں۔ بعد ازاں سینٹ کا اجلاس (آج) منگل کی سہ پہر تین بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔