دنیا بھر میں مقیم کشمیرکے سرگرم کارکنان کی جانب سے سب سے بڑی مہم کامیابی سے مکمل

مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو تصاویر کے ذریعے اجاگر کیا گیا

پیر 6 نومبر 2017 17:46

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 06 نومبر2017ء) دنیا بھر میں مقیم کشمیرکے سرگرم کارکنان نے اب تک کی سب سے بڑی مہم کامیابی کے ساتھ مکمل کی جس میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی صورتحال کو مصدقہ اور مستند ذرائع سے حاصل کردہ تصاویر کے ذریعے اجاگر کیا گیا۔ اس مہم کو ہیش ٹیگ کے ذریعے آن لائن دیکھا جا سکتا ہے جس میں تنازعہ کشمیر سے متعلق تصدیق شدہ، مستند اور تاریخ و تفصیلات کے ہمراہ تصاویر کا ایک انمول خزانہ موجود ہے۔

اس مہم کا آغاز رواں سال ستمبر میں ہوا جو اکتوبر کے اواخر میں اختتام پذیر ہوئی۔ یوتھ فورم فار کشمیر کے کارکن غلام شبیر کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے عالمی خبر رساں اداروں کی جانب سے جاری کردہ تصاویر استعمال کیں جو کہ مقبوضہ کشمیر میں لی گئی تھیں۔

(جاری ہے)

یہ تصاویر تنازعہٴ کشمیر میں ہونے والی ہر پیشرفت کا ایک دستاویزی ثبوت ہیں جسے کوئی بھی فریق جھٹلا نہیں سکتا‘‘۔

انہوں نے کہا کہ اس مہم کی بنیاد اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی میں پاکستان کی جانب سے استعمال کی جانے والی فلسطینی لڑکی کی تصویر بنی جس نے کشمیر میں پیلیٹ متاثرین کے حوالے سے ایک عالمی بحث چھیڑ دی تھی۔ فلسطینی لڑکی کی تصویر صحیح نیت سے استعمال کی گئی تھی جس نے ایک موقع فراہم کیاکہ دیگرمصدقہ تصاویر کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے انسانیت سوز مظالم کو دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کشمیر کے سرگرم کارکنان نے ایک اچھوتا خیال پیش کیا جس کے تحت انہوں نے ایک مہم ’’تصاویر کشمیر کیلئے بولتی ہیں‘‘ کا آغاز کیا جس میں انہوں نے ایک ماہ تک روزانہ کشمیر کی پانچ تصاویر سوشل میڈیا پر جاری کیں جو کہ مصدقہ اور مستند ذرائع سے حاصل کی گئی تھیں۔مہم کو ہیش ٹیگ کے تحت چلایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ تصاویر بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بین الاقوامی ایجنسیز کیلئے کام کرنے والے فوٹو گرافرز کی کاوشیںتھیں جو کہ مصدقہ ہیں اور تاریخ و تفصیلات کے ساتھ اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر جو کہ ایک بین الاقوامی تنازعہ ہے، میںانسانی حقوق کی کیا کیا خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں۔

یوتھ فورم فار کشمیر اور کشمیر کے سرگرم کارکنان کے ساتھ ساتھ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی اس مہم میں حصہ لیا۔یہ مہم اس تنقید کا مقابلہ کرنے میں مفید ثابت ہوئی جو کہ فلسطینی لڑکی کی تصویر دکھائے جانے کے بعد شروع ہوئی تھی کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہو رہی۔ ٹوئٹر پر ایک لاکھ 65 ہزار سے زائد جبکہ فیس بُک پر 45 ہزار سے زائدصارفین اس مہم کا حصہ بنے رہے،تنازعہٴ کشمیر سے متعلق اس مہم کا ریکارڈ اب مستقل طور پردنیا بھر میں کہیں سے بھی آن لائن سرچ انجن پر ہیش ٹیگ کے ذریعے تلاش کیا جا سکتا ہے۔

متعلقہ عنوان :