پاکستان سٹیل مل نے ریٹائر ملازمین کو جون 2015سے پروویڈنٹ فنڈ اور مئی 2013سے گریجوایٹی واجبات ادا نہیں کئے، سینیٹ میں حکومت کا انکشاف

گریجویٹی فنڈ کی مد میں 5ارب31کروڑ پروویڈنٹ فنڈ کی مد میں 4ارب 42کروڑ 90لاکھ سے زائد کی رقم ادانہیں کی گئی،2008-09سے اب تک گریجویٹی واجبات اور پروویڈنٹ فنڈ کی ملازمین کے 44ارب روپے سے زائد کے واجبات پاکستان اسٹیل مل کے ذمے ہیں، اسٹیل مل سرمایہ پیدا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ، ملازمین کو ماہوار تنخواہ جی او پی ادا کر رہا ہے، وزیر ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال کے سوالوں کے جواب وزیر منصوبہ بندی کے بیان پر بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز کا احتجاج ، کبھی صوبائی عصبیت کی بات نہیں کی اپنا حق مانگ رہے ہیں ،سینیٹر عثمان کاکڑ ، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے معاملہ متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیا

جمعرات 2 نومبر 2017 20:20

'اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 02 نومبر2017ء) سینیٹ (ایوان بالا) میں حکومت نے انکشاف کیا کہ پاکستان سٹیل مل نے اپنے ریٹائرڈ ملازمین کو جون 2015سے پروویڈنٹ فنڈ اور مئی 2013سے گریجوایٹی واجبات کی ادائیگی نہیں کی، گریجویٹی فنڈ کی مد میں 5ارب31کروڑ جبکہ پروویڈنٹ فنڈ کی مد میں 4ارب 42کروڑ 90لاکھ سے زائد کی رقم ادانہیں کی گئی،2008-09سے اب تک گریجویٹی واجبات اور پروویڈنٹ فنڈ کی ملازمین کے 44ارب روپے سے زائد کے واجبات پاکستان اسٹیل مل کے ذمے ہیں، اسٹیل مل سرمایہ پیدا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، ملازمین کو ماہوار تنخواہ جی او پی ادا کر رہا ہے۔

وزیر ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال نے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ گوادر میں پانی کی قلت پر قابو پانے کیلئے 11ارب 39کروڑ روپے سے زائد رقم مختص کی گئی ہے اور وہاں 300میگاواٹ کا توانائی کا منصوبہ 2020میں مکمل ہو گا اور 50لاکھ گیلن پانی کا پلانٹ بھی لگایا جا رہا ہے اور اس 5ڈی سالنیشن پلانٹ لگائے جا رہے ہیں، صوبائی حکومت براستہ سڑک پانی لے جا رہی ہے اور جس پر اخراجات زیادہ آتے ہیں اور دو ڈیمز بنائے جا رہے ہیں جس میں بارش کا پانی ذخیرہ کیا جائے گا۔

(جاری ہے)

وزیر منصوبہ بندی کے بیان پر بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز کا احتجاج ، سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ کبھی صوبائی عصبیت کی بات نہیں کی اپنا حق مانگ رہے ہیں ۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے گوادر میں پانی مسئلہ متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیا۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے اس پر برہمی کا اظہار کیااور کہا کہ 2013سے اب تک اس پر تحقیقات کیوں نہیں کی گئیں، کیا وفاقی حکومت کی کوئی ذمہ داری نہیں، ادارے ایک وزرائے اعظم کو گھر بھیج دیتے ہیں مگر اتنی بڑی کرپشن ہوئی ،ادارے ان کو کیوں نہیں پکڑتے۔

جمعرات کو سینیٹ (ایوان بالا) کا اجلاس ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے اراکین کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول بڑے جرم پر قید کی سزا دی جاتی ہے اور چھوٹا جرم ہو تو جرمانہ کیا جاتا ہے۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ دودھ میں ملاوٹ زیادہ ہو رہی ہے اس پر کیا سزا دی جاتی ہے۔

وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے جواب دیا کہ صوبوں میں اس پر کام ہو رہا ہے،بالخصوص پنجاب میں اس پر محکمہ موجود ہے اور وہ چھاپے مارتے ہیں اور دوکانوں کو سیل کیا جاتا ہے، جرمانے بھی کئے جاتے ہیں، دودھ اور گوشت میں ملاوٹ پر سزائیں دی گئی ہیں۔ اعظم سواتی کی درخواست پر ایس سی کیو سی سے متعلق سوال موخر کر دیا، وزیر ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال نے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ گوادر میں پانی کی قلت پر قابو پانے کیلئے 11ارب 39کروڑ روپے سے زائد رقم مختص کی گئی ہے اور وہاں 300میگاواٹ کا توانائی کا منصوبہ 2020میں مکمل ہو گا اور 50لاکھ گیلن پانی کا پلانٹ بھی لگایا جا رہا ہے اور اس 5ڈی سالنیشن پلانٹ لگائے جا رہے ہیں، صوبائی حکومت براستہ سڑک پانی لے جا رہی ہے اور جس پر اخراجات زیادہ آتے ہیں اور دو ڈیمز بنائے جا رہے ہیں جس میں بارش کا پانی ذخیرہ کیا جائے گا۔

عثمان کاکڑ نے سوال کیا کہ اگر بارش نہ ہوئی تو پھر کیا ہو گا، ایک ٹینکر15روپے کا ہے۔ احسن اقبال نے جواب دیا کہ وفاقی حکومت نے پانی کی فراہمی کیلئے کوئٹہ میں 10ارب لگائے،کسی کو پتہ نہیں کہ وہ کہاں گئے اور گزشتہ حکومت میں یہ رقم دی گئی تھی۔ وفاقی حکومت سے 10ارب روپے گیا اور اسے عوام کیلئے استعمال نہیں کیا گیا،20لاکھ گیلن کا پلانٹ لگایا گیا مگر وہ بھی نہیں چل رہا۔

ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے اس پر برہمی کا اظہار کیااور کہا کہ 2013سے اب تک اس پر تحقیقات کیوں نہیں کی گئیں، کیا وفاقی حکومت کی کوئی ذمہ داری نہیں، ادارے ایک وزیراعظم کو بھی باہر بھیج دیتے ہیں مگر اتنی بڑی کرپشن ہوئی ،ادارے ان کو کیوں نہیں پکڑا جاتا۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ 20لاکھ گیلن والا پلانٹ پہلے اس کی ڈیزائننگ میں کوئی فرق نہیں ہے تھر میں سولر پلانٹ لگائے گئے ہیں، گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین کے ساتھ بات کی مگر ان کو تبدیل کر دیا گیا۔

ڈپٹی چیئرمین نے سوال متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیا۔ سینیٹر نعمان وزیر خٹک نے کہا کہ مرمت کیلئے ایک ارب روپے کا ٹینڈر رکھا گیا ہے، جس کی مرمت مفت میں کی جاتی ہے اور ایک ہفتے کا کام ۔ وزیرترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال نے بتایا کہ یہ ایوان وفاق کا ایوان ہے، یہاں تبصرہ ہر سینیٹر کا حق ہے وہ بات کرے مگر صوبائی عصبیت کی بات نہیں کرنی چاہیے، جتنی سرمایہ کاری موجودہ حکومت نے بلوچستان میں کی ہے، اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی،1998-99میں منصوبے شروع کئے تھے، ان کو ہماری حکومت نے ہی مکمل کیا اور گوادر کو صوبائی دارالحکومت سے جوڑا گیا، گوادر 4سالوں میں مکمل بدل چکا ہے،2013اور 2017کے گوادر میں بڑا فرق ہے،70سال کی محرومی موجودہ حکومت ختم کر رہی ہے، پانی کے مسئلے کو حل کر رہے ہیں۔

سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ بلوچستان کے پشتون علاقوں میں کوئی ایک میگاواٹ بجلی منصوبہ نہیں لگایا گیا، گوادر میں تلاشی لے کر داخلے کی اجازت ہے۔ احسن اقبال نے کہا کہ تعصب کی بات نہ کی جائے۔ جس پر سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ دوسری دفعہ تعصب کی بات ہوئی ہے، اپنا حق مانگنا تعصب نہیں ہے۔ سینیٹر محسن عزیز نے کمیشن کی بات کیجس پروزیر منصوبہ احسن اقبال نے کہا کہ بلی کو خواب میں چھیچھڑے نظر آتے ہیں اور کمیشن کھانے والوں کو کمیشن ہی نظر آتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ساہیوال میں کوئلے سے توانائی منصوبے کی بنیاد لوڈسنٹر پر رکھی گئی اور ٹرانسمیشن لے جانے کی لاگت کم ہے اور ماحولیاتی ایجنسی کی توثیق کے بعد یہ منصوبہ لگایا گیا ہے،ابتداء میں سولر کے منصوبے میں تاخیر کی گئی اور اس کے ٹیرف میں کمی کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ وزیرقانون زاہد حامد نے جواب دیا کہ بی آئی ایس پی کا سروے پورے ملک تک پھیلا دیا جائے گا اور نئی مردم شماری سے بھی مدد ملے گی اور مستحقین تک بی آئی ایس پی کی امداد پہنچائی جائے گی، نومبر 2016میں سروے کا آغاز کیا گیا تھا اور اب تک جاری ہے، پہلی دفعہ جناح ایئرپورٹ پچھلی حکومت میں رکھا گیا تھا اور شرح سود پچھلی حکومت سے کم ہے۔