آواران سے تعلق رکھنے والی3 خواتین کو حکومت بلوچستان کی حراست میں، ان کو غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے کی کوشش کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ،معاملے پر مزید تحقیقات جاری ہیں،آئین کے تحت ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا ، لاپتہ افراد کے حوالے سے حکومت زیرو ٹالرنس کی پالیسی پر عمل پیرا ہے

وزیرمملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کا سینیٹ میں توجہ دلائو نوٹس کا جواب چیئرمین سینیٹ کا معاملے پر غصے کا اظہا ر لاپتہ ہونے والے افراد کو ریاست اٹھاتی ہے ،آئین کے پانچ آرٹیکلزمیںشق نمبر4،شق نمبر9،شق نمبر10،شق نمبر10-Aاورشق نمبر14خلاف ورزی کی جاتی ہے،آئین کے تحت شہریوں کو حاصل حقوق کی خلاف ورزی کی جاتی ہے اورآئین کو نظر انداز کیا جاتا ہے، حکومت وضاحت کرے اور معاملے پر تفصیلات پیش کرے ، رضا ربانی اپوزیشن اورحکومتی اتحادی جماعت پختونخوا ملی عوامی پارٹی کا خواتین کی غیر قانونی حراست کے خلاف ایوان سے احتجاجاً واک آئوٹ

بدھ 1 نومبر 2017 20:10

آواران  سے تعلق رکھنے والی3 خواتین کو حکومت بلوچستان کی حراست میں، ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 01 نومبر2017ء) وزیرمملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا کہ بلوچستان کے ضلع آواران تعلق رکھنے والی تین خواتین حکومت بلوچستان کی حراست میں ہیں ، ان کو غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے کی کوشش کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ،معاملے پر مزید تحقیقات جاری ہیں،آئین کے تحت ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا ، لاپتہ افراد کے حوالے سے حکومت زیرو ٹالرنس کی پالیسی پر عمل پیرا ہے،چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے معاملے پر غصے کا اظہا رکرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ ہونے والے افراد کو ریاست اٹھاتی ہے اورآئین کے پانچ آرٹیکلز جن میںشق نمبر4،شق نمبر9،شق نمبر10،شق نمبر10-Aاورشق نمبر14خلاف ورزی کی جاتی ہے،آئین کے تحت شہریوں کو حاصل حقوق کی خلاف ورزی کی جاتی ہے اورآئین کو نظر انداز کیا جاتا ہے، حکومت وضاحت کرے اور آج کے اجلاس میں معاملے پر تفصیلات پیش کریں جبکہ اپوزیشن جماعتوں سمیت حکومت کی اتحادی جماعت پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے تین خواتین کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھنے کے معاملے پر ایوان سے احتجاجاً واک آئوٹ کیا ۔

(جاری ہے)

بدھ کو ایوان بالا کے اجلاس میں وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے بلوچستان کے ضلع آواران سے تعلق رکھنے والی تین خواتین جو کہ طبی علاج کے حوالے سے کوئٹہ میں موجود تھیں کے مورخہ30اکتوبر2017کو اپنے تین بچوں کے ہمراہ لاپتہ ہونے کے معاملے پر سینیٹر جہانزیب جمالدینی ، فرحت اللہ بابر ، عثمان کاکڑاور سردار اعظم موسیٰ خیل کی جانب سے پیش کئے گئے توجہ دلائو نوٹس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس نوٹس کے حوالے سے سیکرٹریٹ نے کہا کہ یہ معاملہ ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں آتا ۔

چیف سیکرٹری بلوچستان کو متعلقہ حکام سے معاملے پر بات کی ہے ، سرکاری معلومات کے مطابق غیر قانونی طور پر سرحد کراس کر رہے تھے جس کی وجہ سے ان کو گرفتار کیا گیا ،معاملے پر مزید تحقیقات جاری ہیں ، مزید معلومات کیلئے وقت دیا جائے ،آئین کے تحت ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا ، لاپتہ افراد کے حوالے سے حکومت زیرو ٹالرنس کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ، لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے ایک کمیشن بھی کام کر رہا ہے ۔

چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے وزارت داخلہ کو ہدایت دی کہ آج (جمعرات) کو معاملے کے حوالے سے تفصیلات ایوان میں پیش کریں ۔انہوں نے کہا کہ وزیرداخلہ نے تصدیق کی ہے کہ لاپتہ ہونے والی خواتین اس وقت بلوچستان حکومت کے پاس زیر حراست ہیں اور زندہ ہیں ۔سینیٹر کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ حکومت نے خواتین کی گرفتاری کے حوالے سے آئین کے پانچ شقوں کی خلاف ورزی کی ہے ، متحدہ قومی موومنٹ اس معاملے پر احتجاجاً ایوان سے واک آئوٹ کرتی ہے ۔

اس کے بعد متحدہ قومی موومنٹ اور اپوزیشن جماعتوں سمیت حکومتی اتحادی جماعت پختونخوا ملی پارٹی کے ارکان نے اجلاس سے واک آئوٹ کیا ۔چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے معاملے پر غصے کا اظہا رکرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ ہونے والے افراد کو ریاست اٹھاتی ہے اورآئین کے پانچ آرٹیکلز جن میںشق نمبر4،شق نمبر9،شق نمبر10،شق نمبر10-Aاورشق نمبر14خلاف ورزی کی جاتی ہے ۔

آئین کے تحت شہریوں کو حاصل حقوق کی خلاف ورزی کی جاتی ہے اورآئین کو نظر انداز کیا جاتا ہے ۔اس حوالے سے حکومت وضاحت کرے ۔آئین کے تحت حکومتی اداروں کی جانب سے اٹھائے گئے افراد کو چوبیس گھنٹوں میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے اور فیئر ٹرائل کا حق دیا جاتا ہے ۔توجہ دلائو نوٹس پیش کرتے ہوئے جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ ایک طرف ہم انسانیت اور انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں دوسری طرف ہمارے بچے اور خواتین غیر محفوظ ہیں اس طرح کے واقعات سے نفرتیں بڑھیں گی ۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پہلے افراد اغوا ہوتے تھے اب خاندان اغوا ہونے لگے ہیں جو کوئی ریاست کے بیانئے کے خلاف آواز اٹھائے لاپتہ کیا جاتا ہے اور مقدمات بنائے جاتے ہیں یا سڑکوں پر پٹائی کی جاتی ہے اور کردار کشی کی جاتی ہے ۔ پاکستان اقوام متحدہ کے جنیوا میں انسانی حقوق کمیشن کے اجلاس میں انسانی حقوق کے حوالے سے کیا جواب دے گا ۔سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا واقعے کی مذمت کرتا ہوں ، بلوچستان سے مسلسل سینکڑوں کی تعداد میں مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں ، ایسے لگتا ہے کہ ملک میں جنگل کا قانون ہے ، عدلیہ چھوٹے چھوٹے معاملات کو سوموٹو ایکشن لیتی ہے اس معاملے پر کارروائی کیوں نہیں کرتی ۔