موجودہ حکومت کا اقتصادی ماڈل ناکام ہو گیا ،کل وقتی وزیر خزانہ لایا جائے ‘ اسد عمر

معاشی خسارہ 5ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے ،ملک میں نیشنل سکیورٹی کرائسز بڑھ رہا ہے‘ چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار ٹیکسٹائل انڈسٹری میںاب بھی 15ارب ڈالر کا پوٹینشنل موجود ہے ،حکومت ساتھ دے تو اندرونی خسارہ پورا کر سکتے ہیں‘ گروپ لیڈر اپٹما اعجاز گوہر

ہفتہ 28 اکتوبر 2017 18:19

موجودہ حکومت کا اقتصادی ماڈل ناکام ہو گیا ،کل وقتی وزیر خزانہ لایا ..
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 اکتوبر2017ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کے چیئرمین اسد عمر نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت کا اقتصادی ماڈل ناکام ہو گیا ہے ،وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار ساڑھے چار سال میں ملک کی معیشت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے ،ان کی مصروفیات اور ناکامی کے بعد حکومت نیا کل وقتی وزیر خزانہ لائے ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز اپٹما ہائوس میں اپٹما عہدیداروں کے ساتھ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کے دوران کیا ۔اپٹما کے گروپ لیڈر اعجاز گوہر اور دیگر بھی اس موقع پر موجود تھے۔ اسد عمر نے کہا کہ موجودہ حکومت نے دعویٰ کیا تھاکہ پاکستان کو ایشیاء کا ٹائیگر بنا ئے گی جس میں وہ مکمل طور پر ناکام رہی ہے ۔ معاشی بحران ہمارے سر پر آ چکا ہے اورملک کے قرضے سے تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔

(جاری ہے)

اس سال ہمارا معاشی خسارہ 5ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے ۔ ملک میں ہر سال لاکھوں نوکریاں درکار ہیںاور نوجوانوں کو روزگار نہیں مل رہا ۔ فیصل آباد میں ٹیکسٹائل انڈسٹری مالکان اپنا کاروبار فروخت کر رہے ہیں۔ ملک میں نیشنل سکیورٹی کرائسز بڑھ رہا ہے ۔مسلم لیگ (ن) کا ترقی کا ماڈل مکمل طو رپر فیل ہو چکا ہے ۔وزیراعظم شاہد خاقان عباسی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے کام کریں۔

ملک میں معاشی ایمر جنسی لگانے کی ضرورت ہے ۔ اپٹما کے گروپ لیڈر اعجاز گوہر نے کہا کہ اب بھی وقت ہے کہ حکومت ٹیکسٹائل سیکٹر کی طرف توجہ مرکوز کرے اور اس سے پورے ملک کا مفاد وابستہ ہے۔ انہوںنے کہا کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری میںاب بھی 15ارب ڈالر کا پوٹینشنل موجود ہے ۔ ہمارے پاس دھاکہ اور کپڑا پڑا ہوا ہے ۔ اگر حکومت ہمارا ساتھ دے تو ہم اندرونی خسارے کو پورا کر سکتے ہیں ۔ ہمارا واضح مطالبہ کہ پورے ملک میں بجلی اور گیس کے نرخ یکساں مقرر کئے جائیں ۔ اگر پنجاب گیس پیدا نہیں کرتا تو اس کے اضافی ٹیرف کا بوجھ حکومت کو برداشت کرنا چاہیے تاکہ ہم عالمی مارکیٹوں میں دنیا کے دیگر ممالک کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکیں۔

متعلقہ عنوان :