بحریہ ٹائون کو سرکاری زمین کی الاٹمنٹ سے متعلق مقدمے میں صوبائی حکومت کی جانب سے نجی وکیل کے پیش ہونے پر سپریم کورٹ کا اظہار برہمی

منگل 24 اکتوبر 2017 22:50

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 اکتوبر2017ء) سپریم کورٹ نے کراچی میں واقع سرکاری زمین کی بحریہ ٹائون کو الاٹمنٹ سے متعلق مقدمے میں صوبائی حکومت کی جانب سے سرکاری وکیل کی جگہ نجی وکیل کے پیش ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیا سرکاری وکیل ختم ہوگئے ہیں یا ان میں اہلیت نہیں رہی ، سرکاری وکلاء کے باوجود نجی وکیل کو قومی خزانے سے ادائیگی کی جائے گی، منگل کوجسٹس اعجازافضل کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی، اس موقع پرسندھ حکومت کے وکیل فاروق ایچ نائیک پیش ہوئے توعدالت نے ان سے کہاکہ سپریم کورٹ میں سندھ کے لا افسران موجود ہیں توپھر آپ کی خدمات حاصل کرنے کی کیا ضرورت تھی جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ حکومت کوآئینی ،قانونی یاکسی بھی اہم معاملے پر نجی وکیل حاصل کرنے کا اختیار حاصل ہے، جسٹس اعجاز افضل نے ان سے کہا کہ ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کیا سرکاری وکلاء کیس کی پیروی کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے، جب اٹارنی جنرل اورایڈووکیٹ جنرلزکی تقرری کی جاتی ہے اس وقت ان کی پیشہ ورانہ صلاحیت کوکیوں نہیں دیکھا جاتا، اگرسرکاری وکیل باصلاحیت اورپیشہ ور ہوتو وہ حکومت کا بہتر دفاع کرسکتے ہیں، لیکن نظرآتاہے کہ یہاں سرکاری وکلا ء کے تقرر کے وقت احتیاط اور سوچ بچار نہیں کی جاتی، اکثروبیشترسرکاری وکلاء کم تجربہ کار اورغیرمستند ہوتے ہیں، شاید تقرری کے وقت میرٹ کو نہیں دیکھاجاتا، سوال یہ ہے کہ کیاسپریم کورٹ پکنک کی جگہ ہے جہاں سرکاری وکلاء تیاری کے ساتھ نہیں آتے، فاضل جج نے کہاکہ عدالتی احکامات کے باوجود متعلقہ حکومتوں نے اس معاملے کاکوئی نوٹس نہیں لیا، ایف بی آر کروڑوں روپے کے ٹیکس معاملہ میں جووکیل مقررکرتاہے وہ انتہائی کمزورہوتے ہیں، کراچی میں جوسرکاری زمین الاٹ کی گئی ہمیں اس کے نقشے پیش کئے جائیں اورملٹی میڈیاپرسرکاری زمین نجی کمپنی کوالاٹ کرنے کی نشاندہی کی جائے ،عدالت کوفاضل وکیل نے بتایا کہ گزشتہ سماعت پر عدالت نے حکم دیا تھالیکن نقشے جمع نہیں ہوسکے، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ہمیں اندھیرے میں رکھنے کے لیے نقشے اورملٹی میڈیا سی ڈی تیار نہیں کی گئی، عدالت کونقشوں سے معلوم ہوگاکون سی سرکاری زمین الاٹ کی گئی فاروق نائیک نے نقشے جمع نہ کرنے پرعدالت سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کے حوالے کی گئی زمین جس علاقے میں ہے وہ تین قسم کی ہے، ایک سرکاری زمین پر کرایہ دار ہیں، دوسری جگہ واقعی سرکاری زمین پرڈیرہ جمائے کرائے دار مالک بن گئے ہیں اور تیسری وہ اراضی ہے جو جدی پشتی لوگوں کی ہے، جس کا حکومت سے تعلق نہیں، یہ قبولی زمین کہلاتی ہے ، جوبادشاہت کے دورمیں الاٹ کی گئی ، فاروق ایچ نائیک کے دلائل جاری تھے کہ کیس کی سماعت ملتوی کردی گئی۔

(جاری ہے)

دوسرے کیس میں، پنڈ پڑیاں، لوئی بھیر میں بحریہ ٹائون کو اراضی کی الاٹمنٹ سے متعلق کیس میں عدالت نے استفسار کیا کہ ہمیں بتایاجائے کہ اسلام آباد کی حدود کہاں تک ہیں ، سی ڈی اے کی مبینہ ملی بھگت سے اس کی حدود کو وسیع کیا جارہا ہے جو ماسٹر پلان کی خلاف ورزی ہے ،عدالت کو جنگلات کی زمینوں پر قبضے کے حوالے سے دوہفتے میں رپورٹ پیش کی جائے ہے،سماعت کے موقع پر جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ آج تک جتنی رپورٹس سپریم کورٹ میں آئی ہیں وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

عدالت نے اسلام آباد اور راولپنڈی کے کمشنر اور ڈپٹی کمشنرز ،سیکریٹری جنگلات، کمشنر ہزارہ اور ڈپٹی سروے جنرل آف پاکستان مل بیٹھ کر دارالحکومت کی حد بندی کے معاملات کاجائزہ لے کر رپورٹ پیش کریں ، اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ آج تک دارالحکومت سے متعلق جتنی رپورٹس سپریم کورٹ میں آئی ہیں وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں، علاقے کی حد بندی ہو سکتی ہے لیکن علاقہ کم یا زیادہ نہیں ہو سکتا، رپورٹ میں 1940،45 اور 47کے سروے کے مطابق علاقے سے آگاہ کرتے ہوئے جنگلات، پہاڑ، دریا اور زمین واضع ہونی چاہیے اس موقع پردرخواست گزارمحمد شفیع نے عدالت کوبتایاکہ جنگلات کا ریکارڈ گم کر دیا گیا ہے، اس معاملے پر ایک ملازم کو معمولی سزا دی گئی تھی، سروے آف پاکستان کے نمائندے نے عدالت کوبتایاکہ تمام علاقے کا سروے آئندہ ہفتے تک مکمل کرلیا جائیگا ،ایڈیشنل ایڈووکیٹ پنجاب رزاق مرزا نے عدالت میں موقف اپنایا کہ بحریہ ٹائون نے 684ایکڑ اراضی پر قبضہ کررکھا ہے، جس کی رپورٹ آ چکی ہے 1856کے نوٹیفکیشن کے مطابق تخت پڑی کا علاقہ 2210ایکڑ پر مشتمل ہے ،جبکہ بحریہ ٹائون کے وکیل اعتزاز احسن کاکہناتھا کہ یہ معاملہ ابھی تک طے نہیں ہوا کہ موضع تخت پڑی کتنے رقبے پر مشتمل ہے،بعدازاں عدالت نے مزید سماعت دو ہفتوں کے لیئے ملتوی کردی ہے۔

متعلقہ عنوان :