پاکستان سمندر میں اپنی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لئے مکمل طور پر پُر عزم ہے ، وزیر اعظم

پاکستان نے سی پیک کی شکل میں ملک کو قومی اور اقتصادی ترقی کے طور پر متعارف کرایا ہے،شاہد خاقان عباسی اجلاس میں وزیر دفاع انجینئر خرم دستگیر، چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل ظفر محمود عباسی کے علاوہ اعلیٰ فوجی شخصیات کی شرکت

منگل 24 اکتوبر 2017 16:10

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 اکتوبر2017ء) تیرہویں ایشین کوسٹ گارڈز اور میری ٹائم سیکورٹی ایجنسیز کے سربراہان کا اعلیٰ سطح کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہو کر 26 اکتوبر تک جاری ۔ ڈائریکٹر جنرل پاکستان میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی ریئر ایڈمرل جمیل اختر نے اجلاس کی میزبانی کی اور ان کو ایک سال کے لئے فورم کا چیئرمین منتخب کیا گیا۔

اجلاس میں کوسٹ گارڈز، پاکستان میری ٹائم سیکورٹی اور سیفٹی ایجنسیز کے سربراہان اور وفود نے شرکت کی جن میں آسٹریلیا، بنگلہ دیش، چین، انڈونیشیا، جاپان، عوامی جمہوری کوریا، ملایشیا، مالدیب، سنگاپور، سری لنکا، فلپائن، تھائی لینڈ، ویتنام، ترکی، بحرین اور برونائی دارالاسلام شامل ہیں۔ اس اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کوسٹ گارڈز، میری ٹائم سیکورٹی اور سیفٹی ایجنسیز جیسے اداروں کے درمیان مختلف معاملات کے تبادلے، سمندر میں نفاذِ قانون اور عام لوگوں کی فلاح کے معاملات زیرِ بحث لانے کے لئے اکھٹے ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

یہ فورم سال 2004 میں جاپان کوسٹ گارڈز کی جانب سے قائم کیا گیا جس کا مقصد ایشیائی خطے میں سمندری سلامتی اور حفاظتی معاملات کو مزید بہتر بنانا ہے۔ یہ فورم ہر لحاظ سے نہایت منفرد اور مفید ثابت ہوا ہے۔ سمندر میں سرچ اینڈ ریسکیو، سلامتی اور آلودگی جیسے معاملات بنیادی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ مزید یہ کہ اس فورم میں کوسٹ گارڈز کے ساتھ ساتھ میری ٹائم سیکورٹی اور سیفٹی ایجنسی جیسے اداروں کی تعمیری صلاحیتوں کے علاوہ رکن ممالک میں مجموعی طور پر سمندری حفاظت اور سلامتی جیسے درپیش مسائل کو بھی زیرِ بحث لایا جاتا ہے جس کے لئے رکن ممالک بھرپور تعاون کرتے ہیں۔

پاکستان میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی نے اس فورم کی رکنیت سال 2006 میں حاصل کی۔ ڈائریکٹر جنرل پاکستان میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی ریئر ایڈمرل جمیل اختر نے تمام شریک مہمانوں اور خاص طور پر وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کی بطورِ مہمانِ خصوصی شرکت پر خوش آمدید کہا اور ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ وزیر دفاع انجینئر خرم دستگیر، چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل ظفر محمود عباسی کے علاوہ فوجی شخصیات بھی اس موقع پر موجود تھیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان سمندر میں اپنی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لئے مکمل طور پر پُر عزم ہے اور ہمیشہ سمندری معاملات پر عالمی برادری سے تعاون کے لئے تیار ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان نے سی پیک کی شکل میں ملک کو قومی اور اقتصادی ترقی کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ اس کے علاوہ سی پیک جنوبی ایشیا کے ساتھ ساتھ متعدد ریاستوں کی قسمت بدلنے کے لئے اہم ذریعہ ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ مستحکم سمندری ماحول سی پیک اور ہماری مسلسل اقتصادی اور سماجی ترقی کی کامیابی میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کے شروع ہونے سے سمندی تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا اور اس مقصد کے لئے بحری سلامتی کو یقینی بنانا ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ وزیر اعظم نے امید ظاہر کی کہ اس فورم میں شرکت کرنے والی تمام تنظیمیں سمندری سلامتی کے متعلق چیلنجز سے نمٹنے کے لئے تعاون جاری رکھیں گی۔

انہوں نے تمام وفود کا پاکستان میں اجلاس میں شرکت پر شکریہ ادا کیا اور اس اجلاس میں ملوث تمام لوگں اور خاص طور پر ڈائریکٹر جنرل پاکستان میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی ریئر ایڈمرل جمیل اختر کی قیادت میں کامیابی سے منعقد کرانے پر مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے کہ کہ پاکستان میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی سمندر میں قانون نافذ کرنے والے واحد ادارے کے طور پر کام کرنے والا بہت اہمیت کا حامل ہے۔

قومی اور بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کے نفاذ کے لئے حکومتِ پاکستان نے پاکستان میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی کو مکمل طور پر طاقتور سمندری سازوسامان سے لیس کیا ہوا ہے جس میں ہوئی جہاز، نئے حاصل کردہ بحری جہاز اور ساحلی پٹی پر قائم کردہ چوکیاں بھی شامل ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ان کی حکومت ابھرتے ہوئے سمندری چیلنجز سے نمٹنے کے لئے مکمل طور پر باخبر ہے اور اس مقصد کے لئے پاکستان میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی کو مزید وسائل فراہم کرنا ہوں گے جس میں ہیلی کاپٹر بنیادوں پر سرچ اینڈ ریسکیو کی صلاحیتیں شامل ہیں۔

وزیر اعظم کا رکن ممالک کے سربراہان اور وفود سے تعارف بھی کروایا گیا۔ پاکستان میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی نے اس فورم کو مزید مضبوط بنانے اور اس کی رکنیت کو فروغ دینے کے لئے مختلف پیش کش کی ہیں۔ اسی سلسلے میں پاکستان نے ترکی کو اس فورم میں شامل کرنے کی تجویز دی جو فی الحال ایک مبصر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کو بھی اس فورم میں شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

متعلقہ عنوان :