فاٹا میں خواتین کے ووٹوں میں 36 فیصد اضافہ ،ْ
ووٹوں کی کل تعداد 6لاکھ سے بڑھ کر آٹھ لاکھ سے زائد ہوگئی قبائلی علاقوں میں دہشتگردی کیخلاف جنگ کے دوران تمام ایجنسیوں سے تعلق رکھنے والے افراد بے گھر ہوئے ،ْ خاتون ووٹر شورش کے نتیجے میں بعض ایسے مخصوص حالات پیدا ہوئے جس کے بعد قبائل کو سرکار کے ساتھ رجسٹر کروانا ضروری ہو گیا تھا ،ْماہرین
منگل 24 اکتوبر 2017 16:01
(جاری ہے)
مشکلات سہنے کے بعد اب قبائلی خواتین کو اپنے ووٹ کی اہمیت کا احساس ہوا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ فاٹا میں خواتین کے ووٹ میں اضافہ دیکھنے میں آیا ۔
جمیلہ کے مطابق قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران تقریباً تمام ایجنسیوں سے تعلق رکھنے والے افراد بے گھر ہوئے اور انھیں خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں آنا پڑا جہاں انھیں معلوم ہوا کہ شہر اور ایجنسی کی زندگی میں کتنا فرق پایا جاتا ہے۔ملک میں حالیہ مردم شماری کے مطابق گذشتہ تقریباً چار سال کے دوران ایک کروڑ آٹھ لاکھ نئے ووٹروں کا اندراج کیا گیا ہے ،ْحیران کن طور پر قبائلی علاقوں میں خواتین ووٹروں کی تعداد میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا ۔الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر جاری کردہ تازہ اعداد و شمار کے مطابق پچھلے چار سالوں کے دوران ملک میں خواتین کے ووٹوں کے اندراج میں سب سے زیادہ اضافہ یعنی 36 فیصد قبائلی علاقوں میں ہوا جہاں ان کے ووٹوں کی کل تعداد چھ لاکھ سے بڑھ کر آٹھ لاکھ سے زیادہ ہو گئی ہے۔پاکستان میں انتخابات پر نظر رکھنے والے غیر سرکاری ادارے فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک کے ایگزیکٹو کونسل کے رکن ظیہر خٹک کا کہنا ہے کہ فاٹا میں آپریشن اور نقل مکانی کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہوئے جس میں ہر فرد کیلیے قومی شناختی کارڈ بنوانا ضروری ہو گیا تھا۔انھوں نے کہا کہ اس ضمن میں نادرا نے آئی ڈی پیز کیمپوں میں خصوصی کاؤنٹر قائم کیے اور متاثرین کیلئے ہنگامی بنیادوں پر شناختی کارڈ بنوائے جس کا یہ فائدہ ہوا کہ قبائلی خواتین کی اکثریت سرکاری ریکارڈ پر آ گئی اور اس طرح ان کا اندراج بحیثیت ووٹر ہوا۔ظہیر خٹک کے مطابق حکومت کی جانب سے جو نیا قانون منظور کیا گیا ہے اس کے تحت ہر قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقے میں خواتین کے دس فیصد ووٹوں کا پول ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے بصورت دیگر اس حلقے کا پورا انتخاب کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔قبائلی علاقوں میں نام نہاد مقامی روایات ہمیشہ خواتین کو ان کا جائز مقام دلانے میں سب سے بڑی روکاٹ رہی ہے۔پشاور یونیورسٹی میں شعبہ پولیٹکل سائنس کی پروفیسر اور قبائلی خواتین کی تنظیم قبائلی خور نیٹ روک کی رہنما ڈاکٹر نورین نصیر کا کہنا ہے کہ آپریشن اور لوگوں کی اپنے علاقوں سے نقل مکانی نے قبائلی علاقوں کا سارا نقشہ ہی تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔انہوںنے کہاکہ شدید مشکلات اور نقل مکانی نے قبائلی خواتین کو کافی حد تک تعلیم دی ہے اور ان کو کسی حد تک اپنے حقوق سے روشناس بھی کرایا ہے جس کے بعد اب قبائلی خواتین اپنے حق کیلئے اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔انھوں نے کہا کہ فاٹا میں آنے والے انتخابات میں نہ صرف خواتین بڑی تعداد میں اپنا حق رائے دہی کا استعمال کریں گی بلکہ وہ ان میں حصہ بھی لیں گی۔متعلقہ عنوان :
مزید اہم خبریں
-
محمد نواز شریف کیخلاف توشہ خانہ گاڑیوں کے کیس میں نیب نے تفتیش کی روشنی میں رپورٹ جمع کروانے کے لیے مہلت مانگ لی
-
چودھری پرویز الٰہی کے کاغذات نامزدگی روکنے کے معاملے پر متعلقہ تحریری حکم نامہ جاری
-
لانگ مارچ کے دوران توڑ پھوڑ کے 2 مقدمات میں بانی پی ٹی آئی بری
-
بجلی 5روپے فی یونٹ مہنگی ہونے کا امکان
-
نواز شریف کی سعودی عرب اور پھر لندن روانگی کا امکان
-
شاہد خاقان عباسی و دیگر ملزمان کیخلاف ایل این جی ریفرنس کی سماعت بغیر کارروائی 23 اپریل تک ملتوی
-
وزیراعظم محمد شہباز شریف سے پاکستان میں کویت کے سفیر کی ملاقات
-
وزیراعظم محمد شہباز شریف سے جیولن تھرو اتھلیٹ ارشد ندیم کی ملاقات، وزیراعظم کی طرف سے ارشدندیم کیلئے 25 لاکھ روپے انعام کا اعلان
-
سپریم کورٹ نے جعلی ڈگر پر نااہلی کیخلاف نظرثانی درخواست پر سابق ایم پی اے ثمینہ خاور حیات کی نااہلی ختم کر دی
-
فواد چوہدری کے خلاف نجی ہاؤسنگ سوسائٹی سے مبینہ رشوت وصولی معاملے پر ریکارڈ دواپریل کو طلب
-
پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں جلسے کی اجازت کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا
-
صدرزرداری کی پیوٹن کو روسی صدرمنتخب ہونے پر مبارکباد
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.