ہمیں پورا یقین ہے کہ 2018ء میں ہم 2013ء کے مقابلہ میں بہت بہتر پاکستان چھوڑ کر جائیں گے‘ پوری امید ہے کہ 2018ء میں بھی مسلم لیگ (ن) دوبارہ اقتدار میں آئے گی، ہم چاہتے ہیں کہ جو بھی اقتدار میں آئے اسے ایک بہتر پاکستان ملے، حکومتی کارکردگی کے بہترین جج پاکستان کے عوام ہیں اور اس کا فیصلہ پولنگ سٹیشن پر ہوتا ہے‘ 1993ء میں نواز حکومت اگر غیر مستحکم نہ کی جاتی اور وہ اپنی مدت پوری کرتی تو آج ملکی ترقی کی شرح بہت بہتر ہوتی، حکومتی چار سالوں میں ترقی نظر آ رہی ہے، ہمارا دعویٰ ہے کہ جتنے کام ہم نے چار سالوں میں کئے ہیں اتنے 15 سالوں میں بھی نہیں ہوئے، اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی‘ نواز شریف کے خلاف فیصلہ کو عوام نے قبول نہیں کیا، ان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد معیشت پر اثر پڑا ہے‘ نہ میں کبھی وزارت عظمیٰ کا امیدوار تھا اور نہ ہی کبھی میری خواہش تھی، یہ پارٹی کا فیصلہ تھا، پارٹی میں کوئی بھی وزارت عظمیٰ کا امیدوار نہیں تھا، میری کوشش ہو گی کہ اپنے تجربہ کو بروئے کار لاتے ہوئے نواز شریف کی پالیسیوں کو آگے بڑھائوں اور مسائل کو حل کروں‘کابینہ کے ساتھیوں سے 30 سالہ رفاقت ہے اس لئے کوئی مشکل پیش نہیں آ رہی

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی پی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو

پیر 23 اکتوبر 2017 21:31

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 اکتوبر2017ء) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ہمیں پورا یقین ہے کہ 2018ء میں ہم 2013ء کے مقابلہ میں بہت بہتر پاکستان چھوڑ کر جائیں گے‘ پوری امید ہے کہ 2018ء میں بھی مسلم لیگ (ن) دوبارہ اقتدار میں آئے گی، ہم چاہتے ہیں کہ جو بھی اقتدار میں آئے اسے ایک بہتر پاکستان ملے، حکومتی کارکردگی کے بہترین جج پاکستان کے عوام ہیں اور اس کا فیصلہ پولنگ سٹیشن پر ہوتا ہے‘ 1993ء میں نواز حکومت اگر غیر مستحکم نہ کی جاتی اور وہ اپنی مدت پوری کرتی تو آج ملکی ترقی کی شرح بہت بہتر ہوتی، حکومتی چار سالوں میں ترقی نظر آ رہی ہے، ہمارا دعویٰ ہے کہ جتنے کام ہم نے چار سالوں میں کئے ہیں اتنے 15 سالوں میں بھی نہیں ہوئے، اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی‘ نواز شریف کے خلاف فیصلہ کو عوام نے قبول نہیں کیا، ان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد معیشت پر اثر پڑا ہے‘ نہ میں کبھی وزارت عظمیٰ کا امیدوار تھا اور نہ ہی کبھی میری خواہش تھی، یہ پارٹی کا فیصلہ تھا، پارٹی میں کوئی بھی وزارت عظمیٰ کا امیدوار نہیں تھا، میری کوشش ہو گی کہ اپنے تجربہ کو بروئے کار لاتے ہوئے نواز شریف کی پالیسیوں کو آگے بڑھائوں اور مسائل کو حل کروں‘چوہدری نثار علی خان کے بعد پارٹی میں سنیارٹی کے اعتبار سے اور پارلیمنٹ کے اندر بھی دوسرے نمبر پر ہوں، کابینہ کے ساتھیوں سے 30 سالہ رفاقت ہے اس لئے کوئی مشکل پیش نہیں آ رہی۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو پی ٹی وی کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے اہداف میں ٹیکس نیٹ کو وسعت دینا شامل ہے، یہ ہمارے اور تمام سیاسی جماعتوں کے منشور کا بھی حصہ ہے اس کے علاوہ تعلیم اور صحت کے شعبہ میں بہتری لانا بھی ہماری اولین ترجیحات میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بطور وزیراعظم ذمہ داریاں وفاقی وزیر سے مختلف ہوتی ہیں، وفاقی وزیر صرف ایک محکمہ کا ذمہ دار جبکہ وزیراعظم اندرونی و بیرونی ذمہ داریاں بھی نبھاتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) میں اختلافات کی باتیں افواہیں اور اخبارات کی زینت ہیں ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، کسی بھی سطح پر منعقد ہونے والے کسی اجلاس میں ایسا تاثر نظر نہیں آیا، اختلاف رائے جمہوریت اور سیاسی جماعتوں کا حسن ہے تاہم اکثریت کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے، تمام اجلاسوں میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ پارٹی سربراہ نواز شریف ہی ہوں گے، ریاض پیرزادہ کی رائے ان کا حق ہے، ہم اس کا احترام کرتے ہیں لیکن انہیں جنرل کونسل میں بات کرنا چاہئے تھی۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے ایسے کام کئے ہیں جن کے اثرات آئندہ 10 سے 15 سال تک رہیں گے، موجودہ حکومت نے بھرپور کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ ہر ہفتہ ایک منصوبہ کا افتتاح کریں تو پھر بھی جون تک منصوبے ختم نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پورا یقین ہے کہ 2018ء میں ہم 2013ء کے مقابلہ میں بہت بہتر پاکستان چھوڑ کر جائیں گے اور پوری امید ہے کہ 2018ء میں بھی مسلم لیگ (ن) دوبارہ اقتدار میں آئے گی، ہم چاہتے ہیں کہ جو بھی اقتدار میں آئے اسے ایک بہتر پاکستان ملے، حکومتی کارکردگی کے بہترین جج پاکستان کے عوام ہیں اور اس کا فیصلہ پولنگ سٹیشن پر ہوتا ہے۔

موجودہ اسمبلیاں اپنی مدت 4 جون 2018ء کو پورا کریں گی جس کے 60 روز کے بعد نئے انتخابات ہوں گے اور ہم کارکردگی کی بنیاد پر جبکہ اپوزیشن تنقید کے ایجنڈے پر عوام کے پاس جائے گی۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مجھے 100 فیصد یقین ہے کہ نہ صرف سینٹ بلکہ عام انتخابات بھی اپنے مقررہ وقت پر ہی ہوں گے اور جو کہہ رہے ہیں کہ حکومت اپنی مدت پوری نہیں کرے گی مجھے ان پر شک ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عمران خان 5 سال سے قبل ازوقت انتخابات کی باتیں کر رہے ہیں میرا ان کو مشورہ ہے کہ وہ صبر کریں آئندہ جون میں حکومت اپنی مدت پوری کرے گی اور پھر عوام فیصلہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت کو ہر وقت چیلنجز درپیش ہوتے رہتے ہیں، ان کا مقابلہ کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں گذشتہ 7 پارلیمنٹس کا حصہ رہا ہوں جن میں سے صرف ایک بار اسمبلی نے اپنی مدت پوری کی ہے، جمہوریت کی بہتری اسی میں ہے کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں اور پھر عوام فیصلہ کریں۔

ایک اور سوال کے جواب میں وزیراعظم پاکستان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) میں اختلافات کی باتیں افواہیں ہیں اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں،ایک اور سوال کے جواب میںانہوں نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ حقیقت میں ایک ایسا گیم چینجر منصوبہ ہے جس کے فوائد کئی صدیوں تک پاکستان کو ملتے رہیں گے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ اپنے وسائل سے لڑی ہے، ہم نے کبھی اس کا معاوضہ نہیں مانگا یہ تاثر غلط ہے، ہم یہ جنگ آج بھی لڑ رہے ہیں اور مستقبل میں بھی لڑیں گے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں دہشت گردوں سے پاکستان کو خطرہ ہے، پاکستان افغانستان میں امن کا سب سے زیادہ خواہشمند ہے، پاکستان 30 لاکھ افغان مہاجرین کی گذشتہ کئی دہائیوں سے میزبانی کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ بات چیت ہمیشہ درست سمت پر تھی، ہم نے دہشت گردی کے ناسور کا مقابلہ کیا اور اس کے خلاف کامیابیاں حاصل کی ہیں، اس حوالہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ ڈومور کے تقاضے کی گنجائش نہیں اور نہ ہی ہم نے یہ مطالبہ سنا ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بھارتی ناپاک عزائم کا مقابلہ کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں، دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑی جنگ پاک فوج لڑ رہی ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ ہم اپنے وسائل سے لڑ رہے ہیں، ہم نے کبھی اس کیلئے معاوضہ نہیں مانگا، بھارت کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دبانے کیلئے ہر حربہ استعمال کر رہا ہے، پاکستان اور بھارت کے درمیان تمام مسائل کا حل مذاکرات سے ہی ممکن ہے، دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں، ہم ہر قسم کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ کشمیریوں کی جدوجہد کو دہشت گردی سے نہیں جوڑا جا سکتا، پاکستان ان کی حمایت کرتا رہے گا، بھارت سے مذاکرات کی گنجائش پہلے بھی تھی اور آج بھی ہے، مذاکرات اگر خلوص سے کئے جائیں تو نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت دونوں نیوکلیئر طاقتیں اور ذمہ دار ریاستیں ہیں، جن میں دنیا کی بڑی آبادی بستی ہے، دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے، دونوں ملکوں کے درمیان جنگیں بھی ہو چکی ہیں تاہم ہر جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے بھی تیار ہیں، ہم برابری کی سطح پر اور کشمیر کے مسئلہ کو سامنے رکھ کر بات چیت کیلئے تیار ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی سے نہیں جوڑا جا سکتا، کشمیریوں کی جدوجہد حق خود ارادیت کیلئے ہے، ہم اس کی مکمل حمایت کرتے ہیں، ان کا یہ تسلم شدہ حق ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ مذاکرات کی گنجائش پہلے بھی تھی اور اب بھی ہے، اگر خلوص سے مذاکرات کئے جائیں تو بہتر نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے پاکستان کے حوالہ سے عزائم ناپاک ہیں، ہم نے ان کا مقابلہ کیا ہے اور آئندہ بھی مقابلہ کرنا جانتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم نے کامیابیاں حاصل کی ہیں، ہم نے دہشت گردی کا خاتمہ کیا ہے جبکہ دیگر ممالک نہیں کر سکتے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کو خطرہ ہمیشہ اندر سے رہتا ہے جو نظر نہ آنے والا ہے، ان چیلنجز کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم نے اقتدار سنبھالا تو اس وقت کراچی دنیا کے 5 خطرناک شہروں میں شامل تھا لیکن آج یہاں پر حالات بہتر ہیں اور اب اس شہر کا نام دنیا کے 100 خطرناک شہروں میں بھی نہیں، فاٹا میں حکومتی رٹ قائم کی، تبدیلی ہر شخص محسوس کرتا ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سٹیل ملز اور پی آئی اے کا موزوں حل ان کی نجکاری ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم نے سٹیل ملز کا خسارہ کافی حد تک کم کیا تاہم یہ موزوں یونٹ نہیں ہے، ہم نے اس کے ملازمین کا خیال رکھا، پی آئی اے کے سٹرکچر میں تبدیلی لائی، ان کا مستقل حل نجکاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ سال تجارتی خسارہ مزید کم ہو گا، برآمدات میں اضافہ ہو گا، برآمدات میں کمی کی وجہ ملکی اور عالمی حالات تھے تاہم اب اس میں کافی بہتری آ رہی ہے، رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں شرح نمو 25 فیصد رہی۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایل این جی کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ممکن ہوا ہے، فرٹیلائزر انڈسٹری، سی این جی سٹیشنوں، پاور سٹیشنوں کو ایل این جی کے ذریعے گیس فراہم کی گئی ہے، آئندہ سردیوں میں گیس وافر مقدار میں دستیاب ہو گی تاہم کچھ اندرونی مسائل کا سامنا ہو گا، 20 سے 30 فیصد اضافی گیس دستیاب ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں توانائی کے مسئلہ کا حل گیس کے علاوہ ممکن نہیں تھا، ایران۔

پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ بھی عالمی پابندیوں کی وجہ سے مسائل میں تھا جبکہ اس کا واحد حل ایل این جی تھا، ہم سے پہلے کی حکومتوں نے 7 سے 8 بار اس منصوبہ کیلئے کوششیں کیں تاہم ہم نے صرف 20 ماہ کی مدت میں اس کو حتمی شکل دی، یہ دنیا کا سستا ترین کنٹریکٹ ہے جس میں حکومت سے زیادہ ایل این جی پرائیویٹ سیکٹر لا رہا ہے۔