آج مشرف اور ضیاء ازم جیت گیا اور بھٹو ازم ہار گیا،

حکومت 2018میں نواز شریف مسلم لیگ (ن)کے صدر ہوں یا نہ ہوں ان کی تصویر بھی آپ کو الیکشن نہیں جیتنے دے گی، عدالتوں کے ایوانوں میں جنگوں کے محاذوں سے زیادہ انصافیاں ہوتی ہیں،جو مکا وقت گزرنے کے بعد یاد آئے اسے اپنے منہ پر مار لینا چاہیے،اپوزیشن میں بیٹھے لوگوں نے آج ڈکٹیٹروں کی حمایت کی،آج اکثریت کے بل بوتے پر روایات کو توڑا گیا اور انتہا پسندی کی گئی،جن چہروں نے جمہوریت کیلئے جدوجہد کی وہ جمہوریت کیخلاف سازش کا حصہ بن گئے، پیپلز پارٹی نے شہید بھٹو صاحب کے بنائے قانون کو رد کر دیا حکومتی سینیٹرز مشاہد اللہ ،پرویز رشید، نہال ہاشمی و دیگر کا سینیٹ میں الیکشن ترمیمی بل پر بحث میں اظہار خیال بدعنوانی کو سہارا دینے کیلئے جمہوریت کی چادر کو سہارا نہ بنایا جائے،جن لوگوں نے پارلیمنٹ کو بے توقیر کیا وہ آج ہمیں جمہوریت کا درس دے رہے ہیں، پیپلز پارٹی کسی ایک شخص کی ذات کو فائدہ دینے کیلئے ساتھ نہیں دے سکتی، فرد واحد کو تقویت دینے کیلئے شق 203الیکشن بل میں ڈالی گئی، اپوزیشن سینیٹرز کا سینیٹ میں اظہار خیال

پیر 23 اکتوبر 2017 21:11

آج مشرف اور ضیاء ازم جیت گیا اور بھٹو ازم ہار گیا،
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 23 اکتوبر2017ء) سینیٹ میں حکومتی سینیٹرز نے اپوزیشن جماعتوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ مشرف اور ضیاء ازم جیت گیا اور بھٹو ازم ہار گیا، 2018میں نواز شریف مسلم لیگ (ن)کے صدر ہوں یا نہ ہوں ان کی تصویر بھی آپ کو الیکشن نہیں جیتنے دے گی، عدالتوں کے ایوانوں میں جنگوں کے محاذوں سے زیادہ انصافیاں ہوتی ہیں،جو مکا وقت گزرنے کے بعد یاد آئے اسے اپنے منہ پر مار لینا چاہیے،اپوزیشن میں بیٹھے لوگوں نے آج ڈکٹیٹروں کی حمایت کی،آج اکثریت کے بل بوتے پر روایات کو توڑا گیا اور انتہا پسندی کی گئی،جن چہروں نے جمہوریت کیلئے جدوجہد کی وہ جمہوریت کیخلاف سازش کا حصہ بن گئے، پیپلز پارٹی نے شہید بھٹو صاحب کے بنائے قانون کو رد کر دیا۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار پیر کو سینیٹ میںالیکشن ترمیمی بل پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے مسلم لیگ (ن)کے سینیٹرز مشاہد اللہ خان،پرویز رشید،غوث بخش نیازی،سینیٹر مرتضیٰ جاوید عباسی و دیگر نے کیا ۔بل پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف ملک کے سب سے مقبول رہنما ہیں،جو وہ ثابت کر چکے ہیں کہ مختلف حلقے ان کو سیاست سے نا اہل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں وہ ابھی تک ناکام ہو رہے ہیں،ایوان میں الیکشن ترمیمی بل پیش کرنے والے سیاست میں میدان میں نواز شریف کا مقابلہ کرنے میں تو ناکام ہو گئے اس لئے اس طرح ے حربے استعمال کر رہے ہیں، عوام نواز شریف کو لیڈر مانتی ہے، قرار دادوں اور اس طرح کے بلوں سے یہ لوگ نواز شریف کو عوام کے دلوں سے نہیں نکال سکتے،جس کا فیصلہ 2018کے انتخابات میں بھی ہو جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ جو مکا وقت گزرنے کے بعد یاد آئے اسے اپنے منہ پر مار لینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بل کو سینیٹ سے منظور کروانے کیلئے جو مقابلہ ہوا ہے یہ مقابلہ بھٹو ازم، مشرف اور ضیاء ازم کے درمیان تھا جو بدقسمتی سے مشرف اور ضیاء ازم جیت گیا اور بھٹو ازم ہار گیا۔اپوزیشن میں بیٹھے لوگوں نے ڈکٹیٹروں کی حمایت کی،اس طرح کے حربوں سے اب نواز شریف کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔

سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ اگر اکثریت کے بل بوتے پر آپ نے ایوان کی روایات کو توڑنا ہے تو کمیٹیوں کو ختم کر دیں،ہم لوگ سینیٹرز ہیں ہمیں ایوان کی بالادستی اور جمہوریت کی بات کرنی چاہیے نا کہ کسی اور کے بریف کو اس ایوان میں لے کر آئیں۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر چوہدری تنویر نے چیئرمین سینیٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایوان آپ کی سربراہی میں چل رہا تھا، اس فورم سے ہمیشہ جمہوریت کی حاکمیت کی بات کی جاتی تھی، نواز شریف اور بے نظیر نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا اور میثاق جمہوریت پر دستخط کئے، بھٹو کے بعد نواز شریف اس قوم کو لیڈر ملا،جس نے قوم کوسر اٹھا کر جینا سکھایا۔

جے یو آئی کے سینیٹرحافظ حمد اللہ نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ نے ہمیشہ روایات کو ترجیح دی، آج جو کچھ ہوا اکثریت کے بل بوتے پر روایات کو توڑا گیا اور انتہا پسندی کی گئی،یہ کہنا کہ پارلیمنٹ کا رکن منتخب نہ ہونے پر پر کسی سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں بنا جا سکتا یہ غلط ہے، عدالت نے بے نظیر بھٹو کا فیصلہ بھی سنایا تھا جسے اب عدالتی قتل کہتے ہیں تو نواز شریف کے عدالتی فیصلے پر اب کیا کہیں گے، آج جمہوریت ہار گئی اور آمریت زندہ ہو گئی۔

سابق وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ آج میں اسی بوجھل دل کے ساتھ بات کر رہا ہوں جس بوجھل دل کے ساتھ فوجی عدالتوں کے قیام پر ووٹ دیا تھا، مجھے آج چند چہرے اس ایوان میں ایسے نظر آ رہے ہیں جن کے بارے میں اعتراف کرتا ہوں کہ انہوں نے جمہوریت کیلئے جدوجہد کی مگر آج وہی چہرے جمہوریت کے خلاف سازش میں شامل ہو گئے،اجلاس کے بعد ان لوگوں کا ضمیر ان سے ضرور پوچھے گا جن لوگوں نے جمہوریت کے خلاف کامیابی حاصل کر کے ڈیسک بجائے اور خوشی کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو الیکشن سے قبل احتساب کے نام پر پھانسی دی گئی، ان کو پتا تھا کہ وہ سیاست کے میدان پر بھٹو کا مقابلہ نہیں کر سکتے، ٹھیک اسی طرح الیکشن سے چھ ماہ قبل نواز شریف کو نا اہل قرار دیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ مجھے آج برصغیر کی ایک بڑی شخصیت جس نے کراچی جناح حال میں کہا تھا کہ عدالتوں کے ایوانوں میں جنگوں کے محاذوں سے زیادہ انصافیاں ہوتی ہیں کی بات یاد آ گئی، اس ایوان کو پارلیمنٹ کی آواز بلند کرنی چاہیے کسی اور کی ترجمانی نہیں، سیاست کے میدان پر نواز شریف کو شکست نہیں دے سکتے اس لئے وہ لوگ فیصلوں کا سہارا لے رہے ہیں،آج آپ اپنی بے رحم اکثریت سے بے رحم قانون پاس کروا سکتے ہیں لیکن 2018میں نواز شریف مسلم لیگ (ن)کے صدر ہوں یا نہ ہوں ان کی تصویر بھی آپ کو الیکشن نہیں جیتنے دے گی۔

سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ جو بل ایوان سے منظور ہو جائے اس کو بار بار ایوان میں پیش کیا جاتا اس ایوان کی توہین ہے۔ سینیٹر سلیم ضیاء نے کہا کہ آج اس ایوان کا افسوسناک دن ہے، بھٹو صاحب کے نام پر سیاست کرنے والی پیپلز پارٹی کے رویے پر شدید افسوس ہوا، پیپلز پارٹی نے بھٹو صاحب کے بنائے قانون کو رد کر دیا، اس طرح کے رویے نواز شریف کا راستہ نہیں روک سکتے۔

مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ پرویز رشید کی تقریر کو کارروائی سے حذف کیا جائے، جو درج حکومتی بینچوں میں بیٹھے لوگوں کے پیٹ میں ہو رہا ہے وہ الیکشن بل میں ختم نبوت کے حوالے سے شق کی تبدیلی کے وقت کیوں نہیں اٹھا، اس شخص کا بھی نام سامنے آنا چاہیے، جس نے الیکشن بل میں ختم نبوت کے حوالے سے شق میں تبدیلی کی۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر غوث بخش نیازی نے کہا کہ جس انداز میں آج ایوان بالا کی بے توقیری کی گئی اس پر افسوس ہوا،جمہوریت کے دعوے دار آج آمریت کو دعوت دے رہے ہیں، آج پارلیمنٹ نے اپنے پائوں پر خود کلہاڑی ماری ہے، ذوالفقار علی بھٹو نے جو قانون بنایا تھا وہ کسی ایک شخص کیلئے نہیں بلکہ پوری قوم کیلئے بنایا تھا،جنرل اور عدلیہ پارلیمنٹ کا احتساب کرتے ہیں مگر جب عدلیہ اور جنرل کے احتساب کی بات کی جاتی ہے تو اس طرح کے معاملات اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں۔

سینیٹرشیری رحمان نے کہا کہ آج جو باتیں اس ایوان میں کی گئیں ہمیں انہیں سنجیدگی سے لینا چاہیے، حکمران جماعت مایوس نہ ہو، پیپلز پارٹی نے پہلے بھی آئین و جمہوریت کا الم اٹھایا تھا، آئندہ بھی اٹھائے رکھے گی، 2014تک پیپلز پارٹی نے سسٹم کو جمہوریت سے منسلک کیا،جن لوگوں نے پارلیمنٹ کو بے توقیر کیا وہ آج ہمیں جمہوریت کا درس دے رہے ہیں، اگر پارلیمنٹ کو اہمیت دی جاتی تو آج حکومت اس نوبت تک نہ پہنچتی،پیپلز پارٹی کسی ایک شخص کی ذات کو فائدہ دینے کیلئے ساتھ نہیں دے سکتی، فرد واحد کو تقویت دینے کیلئے شق 203الیکشن بل میں ڈالی گئی۔

سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ آج جمہوریت مستحکم ہو چکی ہے، اگر جمہوریت پر حملہ ہوا تو ہم جدہ نہیں جائیں گے بلکہ اس کا مقابلہ کریں گے، آج جمہوریت کا دفاع کیا جا سکتا ہے،ہمیں اپنی سیاسی جماعتوں کو صاف رکھنا ہو گا، بدعنوانی کو سہارا دینے کیلئے جمہوریت کی چادر کو سہارا نہ بنایا جائے۔