سینیٹ میں الیکشن بل 2017 کی شق 203 میں ترمیم کا بل حکومتی مخالفت کے باوجود کثرت رائے سے منظور

پیر 23 اکتوبر 2017 21:11

سینیٹ میں الیکشن بل 2017 کی شق 203 میں ترمیم کا بل حکومتی مخالفت کے باوجود ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 23 اکتوبر2017ء) سینیٹ میں الیکشن بل 2017کی شق 203 میں ترمیم کا بل حکومتی مخالفت کے باوجود کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا،بل کے حق میں 49جبکہ مخالفت میں 18ووٹ پڑے،بل کے تحتعدالتوںسے نا اہل شخص کسی سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں بن سکے گا،کوئی بھی شخص جو پارلیمنٹ کا رکن بن سکتا ہو وہ ہیسیاسی جماعت کا سربراہ بن سکے گا ۔

سینیٹ سے الیکشن ترمیمی بل2017منظور ہونے کے بعدقومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا جہاں حکومت کی اکثریت ہونے کے باعث بل مسترد ہونے کا امکان ہے۔ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ بل آئین کے تحت حاصل بنیادی حقوق کے خلاف ہے،پرویز مشرف نے 2002میں بے نظیر اور نواز شریف کا راستہ روکنے کیلئے یہ قانون بنایا،پارلیمانی انتخابی اصلاحات کمیٹی میں14نومبر2014کو شق 203کے حوالے سے معاملہ آیا،شق 203متفقہ طور پر الیکشن بل میں ڈالی گئی، اس وقت پانامہ کا نام و نشان تک نہیں تھا،یہ کہنا کہ کسی شخص کو بچانے کیلئے یہ شق الیکشن بل میں ڈالی گئی غلط ہے۔

(جاری ہے)

پیر کو سینیٹ اجلاس میں پیپلز پارٹی،تحریک انصاف، جماعت اسلامی، مسلم لیگ(ق) کی جانب سے قانون الیکشن بل 2017کی شق 203میں ترمیم کرنے کا بل (انتخابات ترمیمی بل 2017)پیش کیا گیا۔ تحریک انصاف کے سینیٹر شبلی فراز نے اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے ترمیمی بل پیش کرنے کی تحریک پیش کی گئی، سینیٹر شبلی فراز کا کہنا تھا کہ الیکشن 2017کی شق 203 میں ترمیم کا بل پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کچھ دن قبل حکومتی جماعت ایک ووٹ کی اکثریت سے یہ شق الیکشن بل میں شامل کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی، جس سے اس ایوان کی بدنامی ہوئی، اس شق کو بل میں شامل کرنے کی اخلاقی وجوہات نہیں تھیں، یہ شق منظور ہونے سے پورے پارلیمنٹ پر ٹھپہ لگا،یہ شق عدالتی فیصلے کی تضحیک تھی اور گڈ گورننس پر کالا داغ تھی جس کو ختم کرنے کیلئے یہ بل اپوزیشن جماعتیں لائی ہیں۔

وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ جنرل ایوب خان کے دور میں یہ شق ڈالی گئی جس میں عدالتوں سے نا اہل شخص پارٹی سربراہ نہیں بن سکتا تھا،1962سے 1975تک یہ قانون نافذ رہا،1975میں شہید ذوالفقار علی بھٹو نے یہ شق ختم کی اور کسی بھی شہری کو سیاسی جماعت کا سربراہ بننے کا حق دیا،1975سے 2000تک یہ قانون نافذ رہا،مگر 2002میں جنرل پرویز مشرف نے بے نظیر اور نواز شریف کا راستہ روکنے کیلئے پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ میں یہ شق ڈالی کہ جو شخص پارلیمنٹ کا رکن نہیں بن سکتا وہ کسی جماعت کا بھی رکن نہیں بن سکتا۔

زاہد حامد نے کہا کہ ملک میں انتخابی اصلاحات کیلئے 25جولائی 2014کو پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی، اس کمیٹی نے انتخابات کے حوالے سے 8قوانین کا جائزہ لیا،14نومبر2014کو شق 203کے حوالے سے معاملہ کمیٹی میں آیا،شق 203متفقہ طور پر الیکشن بل میں ڈالی گئی، اس وقت پانامہ کا نام و نشان تک نہیں تھا،یہ کہنا کہ کسی شخص کو بچانے کیلئے یہ شق الیکشن بل میں ڈالی گئی غلط ہے، 17نومبر2014کو ہونے والے کمیٹی اجلاس کے منٹس موجود ہیں،اس وقت اس شق پر کسی نے اعتراض نہیں کیا تھا، زاہد حامد نے کہا کہ کمیٹی کی رپورٹ انتخابی اصلاحات کی مرکزی کمیٹی میں دی گئی جس کے بعد اس رپورٹ کو دونوں ایوانوں میں پیش کیا گیا جبکہ رپورٹ کو ویب سائٹ پر بھی جاری کیا گیا، اس وقت شق 203پر کسی بھی قسم کا کوئی اعتراض نہیں آیا تھا، قومی اسمبلی سے الیکشن بل منظور ہونے کے بعد سینیٹ میں پیش کیا گیا پھر بل سینیٹ کمیٹی کو بھیجا گیاسینیٹ کمیٹی میں بھی شق 203کے حوالے سے کوئی تجویز سامنے نہیں آئی۔

انہوں نے کہا کہ یہ بل آئین کے تحت حاصل بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔اس موقع پر چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے بل پیش کرنے کی تحریک پر رائے شماری کرائی جس میں بل پیش کرنے کی تحریک کے حق میں 46جبکہ مخالفت میں 21ووٹ پڑے،جس کے بعد چیئرمین سینیٹ نے کثرت رائے سے تحریک منظور کرلی۔ بعد ازاں چیئرمین سینیٹ نے بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوانا چاہا تو پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ بل کمیٹی کو نہ بھیجا جائے، ایوان کی رائے لے لیں اس معاملے پر بہت بحث ہو چکی ہے،بل منظور کرنے میں مزید تاخیر نہ کی جائے اور رولز معطل کر کے بل منظور کیا جائے۔

چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ ایوان کی ایک روایت ہے کہ جب کوئی بل پیش کیا جاتا ہے تو بل پیش ہونے کے بعد متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیجا جاتا ہے جس کے بعد کمیٹی اس کی رپورٹ دیتی ہے جو ایوان میں پیش کی جاتی ہے کیوں آپ روایات کو توڑ رہے ہیں، اپوزیشن سے گزارش ہے کہ ایوان کا ایک طریقہ کار بنا ہوا ہے اس کو برقرار کھا جائے تو بہتر ہے۔

وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ ہمیں بتایا جائے کہ ایسی کون سی ایمر جنسی ہے جس کی وجہ سے بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوانے کی بجائے اس کو منظور کروانے کیلئے جلد بازی کی جا رہی ہے ، ہم پر بلڈوز کا الزام لگایا جاتا ہے تو بتایا جائے کہ آج کیا کیا جا رہا ہے۔اس موقع پر قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا کہ ایک عجیب روایت ڈالی جا رہی ہے،اکثریت کے بل بوتے پر روایات توڑی جا رہی ہے،یہ اس ایوان کی توہین ہے، اس طرح کا بچپنا کیا جا رہا ہے کہ چند لوگ زیادہ ہو جائیں تو وہ اپنی من مانی کرلیں، یہ سب کچھ وہ لوگ کر رہے ہیں جن کے سر کا ایک بال بھی کالا نہیں، اس طرح کی جلد بازی نہیں کرنی چاہیے جس سے ایوان کی روایات کو بدلا جائے،یہ کس کو بتانا چاہ رہے ہیں۔

اس موقع پر تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم خان سواتی نے کہا کہ آج وہی ہمیں باتیں سنا رہے ہیں جنہوں نے کل ہماری بات نہیں سنی تھی، اس موقع پر چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے سینیٹر اعظم خان سواتی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ دو ٹوک الفاظ میں بتائیں کہ رولز معطل کرنے کی اپنی تحریک واپس لیتے ہیں کہ نہیں،جس پر سینیٹر اعظم خان سواتی نے کہا کہ میں رولز معطل کرنے کی تحریک واپس نہیں لوں گا، جس پر چیئرمین سینیٹ نے اعظم خان سواتی کورولز معطل کرنے کی تحریک پیش کرنے کی اجازت دے دی،رولز معطل کرنے کے حق میں 47جبکہ مخالفت میں 23ووٹ پڑے۔

بعد ازاں پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے الیکشن بل 2017میں ترمیم کرنے کے بل کی تحریک پیش کی جسے چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کثرت رائے سے منظور کرلیا،چیئرمین سینیٹ نے بل کی شق وار منظور کے بعد بل کو کثرت رائے سے منظور کرلیا، بل کے حق میں 49جبکہ مخالفت میں 18ووٹ پڑے۔سینیٹ سے الیکشن ترمیمی بل منظور ہونے کے بعدقومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا، قومی اسمبلی میں حکومت کی اکثریت ہونے کے باعث بل کو مسترد کئے جانے کا امکان ہے۔