ْ کاشتکار فصل سے فی ایکڑ بہتر پیداوارکیلئے مٹی کا کیمیائی تجزیہ ضرور کروائیں، زرعی ماہرین

پیر 23 اکتوبر 2017 16:40

ملتان۔23 اکتوبر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 اکتوبر2017ء)زرعی ماہرین نے کہا ہے کہ کاشتکار تجزیہ اراضی سے زمین کی ساخت، کلر اور تھور قابل حصول نائٹروجن، پوٹاش، زنک، بوران اور نامیاتی مادے کی مقدار، زمین کا تعامل (pH) اور جپسم کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں اور ان تجزیاتی نتائج کی روشنی میں زمین کی ذرخیزی بحال رکھنے، کلراٹھی زمینوں کی اصلاح اور مختلف فصلوں کی زیادہ پیداوار کیلئے کھادوں کی سفارشات مرتب کر سکتے ہیں ۔

زرعی ماہرین کے مطابق کاشتکار کسی بھی فصل سے فی ایکڑ بہتر پیداوار حاصل کرنے کیلئے فصل کاشت کرنے سے پہلے کھیتوں کی مٹی کا کیمیائی تجزیہ ضرور کروائیں۔ اس سلسلہ میں حکومت پنجاب نے زمینداروں کی سہولت کیلئے ضلعی سطحوں پر تجزیہ گاہیں قائم کی ہیں جس کا انتظام محکمہ نظامت ذرخیزی زمین کے ذمہ ہے۔

(جاری ہے)

یہ لیبارٹریاں یا تجزیہ گاہیں مکمل طور پر کیمیائی تجزیہ اراضی کیلئے مخصوص ہیں۔

ترجمان کے مطابق ایک ایکڑ رقبہ کا تجزیہ کرانا مقصود ہو تو اس کھیت کی 1 کلوگرام مٹی کا نمونہ 10 لاکھ کلوگرام مٹی کی نمائندگی کرتا ہے۔ اگر مٹی کا نمونہ لینے کا طریقہ صحیح نہ ہو تو لیبارٹری میں کیے گئے تجزیہ سے حاصل شدہ نتائج اور ان کی تشریح مکمل طور پر نہیں ہو پاتی۔لہٰذا کاشتکار بہتر تجزیہ اراضی کیلئے کھیت سے مختلف جگہوں سے نمونے حاصل کریںاور پھر ان نمونوں کی مٹی کو یکجا کر کے ایک مرکب نمونہ حاصل کر لیں۔

مرکب نمونہ کے تجزیہ سے اس کھیت کی اوسط ذرخیزی معلوم کی جا سکتی ہے۔ کپاس کے کھیتوں میں ایک مرکب نمونہ 0 تا 30 سینٹی میٹر تک لیں۔ ہر کھیت میں سے تقریباً 5 سے 25 مختلف نمونے حاصل کریں اور پھر ان کا مرکب نمونہ لیں۔ نمونہ لینے سے بیشتر کھیت کا تعین، نمونہ لینے کی جگہ اور دیگر ضروری اطلاعات نقشہ کی صورت میں تیار کریں۔ اس نقشہ میں سطحی، نشیب و فراز، کلر اور ڈھلوان دار جگہوں کو نمایاں طور پر دکھائیں۔ مٹی کے نمونے ایسی جگہوں سے لیں جو سڑکوں، درختوں، کھادوں کے ڈھیر اور مکانات سے دور ہوں۔ شورزدہ علاقے کے نمونے علیحدہ لیں۔ ان سفارشات پر عمل کر کے زمیندار اپنی زمین کی اصلاح کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی پیداوار میں بھی اضافہ کر سکتے ہیں۔