آل پاکستان بزنس فورم نے اضافی ڈیوٹیز کے ذریعے منی بجٹ کے نفاذ کو مسترد کر دیا

پیر 23 اکتوبر 2017 15:50

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 اکتوبر2017ء) آل پاکستان بزنس فورم نے درآمدات پر اضافی ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرنے کے اقدام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر ٹیکسوں میں اضافہ یا ڈیوٹی کا نفاذ نہیں کر سکتی۔ حکومت نے اصل شراکت داروں کو اعتماد میں لئے بغیر 797 اشیاء بشمول صنعتی خام مال پر ریگولیٹری ڈیوٹی کا نفاذ کر دیا ہے۔

ہفتہ کو جاری کردہ اپنے ایک بیان میں آل پاکستان بزنس فورم کے صدر ابراہیم قریشی نے کہا کہ تجارتی خسارے کو پورا کرنے کا یہ صحیح طریقہ نہیں ہے، یہ صرف اور صرف نصف مالیاتی سال میں منی بجٹ کا اعلان ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو صنعتی خام مال اور مقامی پیداوار کی تیاری کیلئے درکار ساز و سامان پر درآمدی ڈیوٹی میں اضافہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس سے پیداواری لاگت میں اضافہ کے باعث درآمدات میں مزید کمی ہوگی۔

(جاری ہے)

ابراہیم قریشی نے کہا کہ آل پاکستان بزنس فورم ایسی ڈیوٹی کے نفاذ سے قبل مشاورت پر زور دیتی رہی ہے لیکن حکام نے اس ضمن میں سٹیک ہولڈرز سے رابطہ نہیں کیا اور یکطرفہ طور پر فیصلہ کا نفاذ کیا۔ انہوں نے کہا کہ متعدد اشیاء پر اضافی ریگولیٹری ڈیوٹی کا نفاذ ضروری نہیں کیونکہ کیمیکلز اور ٹائرز جیسی اشیاء کی سمگلنگ ملک کی اقتصادی بنیادوں کو پہلے ہی نقصان پہنچا رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اضافی ریگولیٹری ڈیوٹی صنعت و تجارت کیلئے دیگر ضروری سامان اور ضروری خام مال کی قیمتوں میں اضافہ کا باعث بنے گی۔ انہوں نے کہا کہ آل پاکستان بزنس فورم ہمیشہ پرتعیش اشیاء کی روک تھام کی حمایت کرتی رہی ہے لیکن یہ بھی مطالبہ کرتی ہے کہ ملک میں تیار نہ ہونے والی اشیاء اور خام مال کی درآمد کو متاثر نہ کیا جائے۔ ابراہیم قریشی نے کہا کہ یہ فیصلہ پالیسی سازوں کی جانب سے منصوبہ بندی کے فقدان کو ظاہر کرتا ہے اور ایسے فیصلے کاروباری سرگرمیوں کیلئے مسائل پیدا کرتے ہیں اور عوام پر اضافی بوجھ ڈالتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ متعدد خوردنی اشیاء بشمول پھلوں اور سبزیوں پر اضافی ریگولیٹری ڈیوٹی سے درآمدی بل میں اضافہ ہوگا اور درآمدات پر قابو پانے کی بجائے تجارتی خسارہ بڑھے گا۔ اسے غیر دانشمندانہ فیصلہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے ملک میں افراط زر کی نئی لہر میں اضافہ ہوگا اور اس سے کاروباری سرگرمیوں کی نمو پر بھی اثر پڑے گا۔ آل پاکستان بزنس فورم کے صدر نے کہا کہ بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ حکومت کے لئے سب سے زیادہ سنگین چیلنجوں میں سے ایک ہے۔

گزشتہ مالی سال میں تجارتی خسارہ سب سے بلند ترین 32.58 بلین ڈالر پر دیکھا گیا جو سال بہ سال 37 فیصد اضافہ کو ظاہر کرتا ہے۔ جب حکومت 2013ء میں اقتدار میں آئی تو ملک کا سالانہ تجارتی خسارہ 20.44 بلین ڈالر تھا اور اس وقت سے اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جولائی میں درآمدات میں 37 فیصد اضافہ ہوا جو 4.84 بلین ڈالر ریکارڈ کی گئی، ایک سال قبل یہ 3.54 بلین ڈالر تھیں۔ 2016-17ء کیلئے مجموعی درآمدی بل میں 18.7 فیصد اضافہ ہوا جو 53 بلین ڈالر رہیں لیکن 2016-17ء میں مجموعی برآمدات میں 1.63 فیصد کمی آئی جو 20.45 ارب ڈالر رہیں۔

متعلقہ عنوان :