امریکی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان خوش آئند، دیرینہ اتحادیوں کے درمیان بہتر تعلقات و ہم آہنگی کو فروغ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ بارے بامقصد مذاکرات کیلئے بنیاد فراہم ہوگی

پاکستان امریکا بزنس کونسل کے بانی چیئرمین افتخار علی ملک کی صحافیوں سے گفتگو

پیر 23 اکتوبر 2017 14:25

لاہور ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 اکتوبر2017ء) پاکستان امریکا بزنس کونسل کے بانی چیئرمین اور جنوبی ایشیائی ملکوں کی تنظیم ’’سارک‘‘ کے چیمبرز کے نائب صدر افتخار علی ملک نے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے دورہ پاکستان کو خوش آمدید کہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس دورے سے دونوں دیرینہ اتحادی ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات کو فروغ اور ہم آہنگی اوردہشت گردی کے خلاف جنگ جیسے سکیورٹی معاملات کے حوالے سے بامقصد مذاکرات کیلئے بنیاد فراہم ہو سکے گی۔

پیر کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے افتخار علی ملک نے کہا کہ کینیڈین خاندان کی طالبان سے رہائی کے بعد پاکستان کے بارے میں امریکی قیادت کی سوچ میں مثبت تبدیلی آئی ہے اور امید ہے کہ دونوں ملک جنوبی ایشیا بالخصوص افغانستان اور بھارت کے متنازعہ امور کے بارے میں جامع اور حقیقت پر مبنی سوچ کا مظاہرہ کریں گے۔

(جاری ہے)

انھوں نے توقع ظاہر کی کہ اس دورے سے پاکستان میں دہشت گردوں کو پناہ دینے کے حوالے سے دیرینہ اتحادیوں کے درمیان تنائو کی حالیہ لہر کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام مسائل کے حل کیلئے بات چیت کا عمل واحد راستہ ہے اور توقع ہے کہ دونوں دوست ملک علاقے میں امن، استحکام اور اقتصادی خوشحالی جسے مشترکہ مقاصد کے حصول کیلئے تعمیری سوچ کا مظاہرہ کریں گے۔ افتخار علی ملک نے کہا کہ پاکستان بارے یہ سوچ کہ وہ ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے مخلص نہیں حقیقت کے خلاف ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 75000 سے زیادہ پاکستانی اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرچکے ہیں، اربوں ڈالر کا اقتصادی نقصان برداشت کیا، یہ وہ حقائق ہیں جنھیں عالمی برادری کے گوش گذار کرنے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اور امریکا اتحادی ہیں، ٹرمپ انتظامیہ کو پاکستان کے حوالے سے نئی پالیسی میں اس جنگ کے دوران پاکستان کی بیش بہا قربانیوں کو مد نظر رکھ کر حقیقی اور زمینی حقائق کے مطابق فیصلے کرنے چاہئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان نارمل تعلقات کے راستے میں سب سے اہم رکاوٹ بیاعتمادی ہے، امریکی پالیسی سازوں کو سوچنا ہوگا کہ اگر وہ خطے بالخصوص افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں تو اس کیلئے پاکستان ان کا سب سے اہم اتحادی ہے۔

حالیہ بداعتمادی کے خاتمے کیلئے فریقین کی جانب سے اقدامات کی ضرورت ہے اور وزیر خارجہ ریکس ٹلر سن اس کشیدگی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ افتخار علی ملک نے کہا کہ پاکستان اور امریکا میں فاصلوں کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی اور افغانستان میں عمل کیلئے سرگرمیوں کو نقصان پہنچے گا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بین الاقوامی برادری کی کوششوں کا حصہ ہے جس نے اس جنگ میں بے پناہ نقصان اٹھایا ہے۔

پاکستان علاقے میں امن و امان کے قیام اور دہشت گردی کے خاتمے میں تعاون کیلئے اب بھی پرعزم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو امداد کی نہیں تجارت کی ضرورت ہے۔ امریکا پاکستان کے سول سیکٹر کو سالانہ 1.5 ارب ڈالر امداد دے رہا تھا جسے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ پاکستان اپنے صنعتی شعبے کی بہتری بالخصوص اپنی سلے سلائے کپڑوں کی برآمد کیلئے امریکی منڈیوں تک مئوثر رسائی کا خواہاں ہے۔دونوں ملکوں کو اقتصادی تعاون میں اضافے اور دوطرفہ تجارت کیلئے آزادانہ تجارت کے معاہدے کی جلد تکمیل کیلئے مل کر کام کرنا چاہیے۔