قدیم ورثہ کا شاندار فیسٹول ’ہیریٹیج نائو‘ الحمرا لاہور میں ختم ہو گیا

اتوار 22 اکتوبر 2017 20:02

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 22 اکتوبر2017ء) ’’ہیریٹیج نائو‘‘ کے عنوان سے الحمرا آرٹس کونسل لاہور میں منعقد ہونے والا قدیم ورثہ کا بین الاقوامی فیسٹول اتوار کو ختم ہو گیا۔ فیسٹول میں تاریخ، آثار قدیمہ، ڈیٹا سائنس، فن تعمیرات، میوزیم پروفیشنلز اور آرٹ کے مداحوں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے حصہ لیا۔

تقریب کا اہتمام ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی جانب سے برٹش کونسل پاکستان، سفارتخانہ فرانس پاکستان، پنجاب یونیورسٹی، والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی (ڈبلیو سی ایل ای) اور یونیسکو کے اشتراک سے کیا گیا۔ فیسٹول کے دلکش اجزاء کی طویل فہرست میں مختلف تاریخی پس منظر کی حامل اور مختلف علاقوں کی دستکاری، لوک موسیقاروں اور ہنرمندوں کی پرفارمنس، قومی اور بین الاقوامی علمی شخصیات کی جانب سے تیرہ مختلف موضوعات کی تحقیقی کاوشوں کے علاوہ پینل گفتگو بھی شامل تھیں۔

(جاری ہے)

تحقیقی پریزنٹیشن کے موضوعات میں ’’قومی تعمیر میں قدیم ورثہ کا کردار اور پاکستان کے قومی وقار کا فروغ‘‘، ’’پاکستان کے قدیم ورثہ کے مختلف ادوار میں آثار قدیمہ کی تازہ ترین دریافتیں: قدیم حجری دور سے وادی سندھ کے دور تک‘‘، ’’پاکستان کے قدیم ورثہ کے مختلف ادوار میں آثار قدیمہ کی تازہ ترین دریافتیں: گندھارا ثقافت سے انگریز دور تک‘‘، ’’مقامات کی مینجمنٹ، مقامی کمیونٹیز کا کردار، پائیداری کی شرط‘‘، ’’غیرملکی آثار قدیمہ مشنوں کی خدمات، ضروریات اور نقطہ نظر‘‘، ’’پرائمری سے اعلیٰ ثانوی تعلیم کی سطح کے نصاب میںآثارقدیمہ اور ورثہ کے بیانیہ کے فروغ پر قومی آگاہی تدریسی پروگرام اور قدیم ورثہ سے متعلق مختلف شعبوں میں تربیت کی فراہمی میں ایچ ای سی کا کردار‘‘، ’’نئی ٹیکنالوجیز اور ہارڈ سائنسز، نقطہ نظر اور مواقع‘‘، ’’پاکستان کے قدیم ورثہ کی نقشہ بندی‘‘، ’’مادی اور غیرمادی ثقافتی ورثہ کا تحفظ اور فروغ‘‘، ’’میوزیم اور تدریس و آگاہی میں میوزیم کا کردار‘‘، ’’پاکستان میں عالمی ورثہ کے مقامات، ان کی مینجمنٹ، تحفظ اور بحالی کے امور‘‘، ’’پاکستان بطور ثقافتی سیاحت‘‘، ’’قدیم ورثہ کے تحفظ اور فروغ میں میڈیا کا کردار‘‘ شامل تھے۔

اختتامی تقریب کے موقع پر اپنے استقبالیہ کلمات میں ایچ ای سی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ارشد علی نے کہا کہ اس تقریب کے انعقاد میں ایچ ای سی کو اپنے پارٹنرز برٹش کونسل، یورپی یونین، سفارتخانہ فرانس، اور دیگر کی جانب سے بھرپور حمایت ملی۔ ڈاکٹر ارشد علی نے کہا کہ اس کانفرنس کا خیال پہلی بار گزشتہ سال چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار احمد کے دورہ پیرس کے دوران فرنچ نیشنل میوزیم آن ایشین آرٹس - گوئمٹ کی صدر صوفی مکاریو سے ملاقات کے موقع پر زیر بحث آیا۔

انہوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ زیادہ تر پارٹنرز میں ہماری یونیورسٹیوں کے نوجوان طلبہ اور اساتذہ شامل ہیں اور یہی نوجوان اسے آگے لے کر بڑھیں گے۔ شرکاء بالخصوص محققین کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے ساتھ ساتھ سوشل سائنسز میں موضوعاتی تحقیق کی گرانٹس بھی دی جا رہی ہیں۔ ان گرانٹس کی مالیت تیس کروڑ روپے تک ہے۔

کمشنر لاہور عبداللہ خان سنبل نے منتظمین کو مبارکباد پیش کی اور کہا کہ تقریب میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے بامقصد انداز میں حصہ لیا۔ انہوں نے بتایا کہ لاہور کو پاکستان کا ثقافتی دارالخلافہ سمجھا جاتا ہے اور ثقافتی ورثہ کے اعتبار سے یہاں سیاحوں کے لئے بہت کچھ ہے۔ انہوں نے شرکاء کو ’’دلکش لاہور‘‘ پراجیکٹ کے بارے میں بھی بتایا۔

پراجیکٹ کا مقصد لاہور کو قدیم ورثہ کے مقامات کے اعتبار سے دلکش اور شاندار بنانا ہے۔ عالمی شہرت یافتہ ماہر آثار قدیمہ کیتھرین جیریج نے کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ منتظمین نے اس تقریب کو ممکن اور کامیاب بنایا۔سفارتخانہ فرانس پاکستان کے نمائندے نے کہا کہ لاہور نے کانفرنس کا خیرمقدم کیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ میں نے ’’والڈ سٹی آف لاہور‘‘ کی سیر کی ہے اور بڑے فخر سے کہہ رہا ہوں کہ پاکستان کے قومی ورثہ کا تحفظ بین الاقوامی معیارات کے مطابق ہو رہا ہے۔

انہوں نے ایسے علاقوں میں سکیورٹی کے سلسلے میں تعاون پر حکومت سندھ اور حکومت بلوچستان کا شکریہ ادا کیا جہاں فرانسیسی مشن کھدائی اور تلاش کے سلسلے میں کام کر رہا ہے۔سندھ اور بلوچستان کے لئے برٹش کونسل کے ایریا ڈائریکٹر کرس ہنٹ نے بھی تقریب کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بے پناہ ثقافتی ورثہ موجود ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کی تقریبات کے ذریعے ہی ثقافتی ورثہ اور مقامات کو سمجھا جا سکتا ہے۔قبل ازیں سندھ طاس پاکستان میں فرانسیسی آثار قدیمہ کی سربراہ ڈاکٹر آرورے دیدیئر نے اپنی کانفرنس پریزنٹیشن کے دوران ایچ ای سی، سفارتخانہ فرانس پاکستان اور دیگر منتظمین کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے محققین کو اپنا تحقیقی کام اور اپنے مستقبل کے منصوبے دوسروں کے سامنے پیش کرنے کا ایسا شاندار موقع فراہم کیا جس سے اشتراک عمل کی صورتیں پیدا ہو سکتی ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ 2015سے سندھ طاس کے لئے فرانسیسی آثار قدیمہ مشن نے چنہو دارو اور ضلع شہید بے نظیر آباد میں کھدائی دوبارہ شروع کر دی ہے۔پشاور یونیورسٹی کے شعبہ آثار قدیمہ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ذاکر اللہ نے بھی خیبرپختونخواہ کے گومل میدان کے علاقے رحمان ڈھیری میں کانسی دور کے مقامات کی کھدائی سے متعلق اپنا تحقیقی کام پیش کیا۔

انہوں نے حاضرین کو بتایا کہ ان کھدائیوں کا مقصد ایک طرف جنوبی ایشیا میں چوتھے اور تیسرے ہزاریہ قبل مسیح کے دوران سماجی و ثقافتی اور سماجی و معاشی ماحول پر اس مقام کے نمایاں کردار کو مزید اجاگر کرنا اور دوسری جانب شہری معاشرے کی ابتداء کا سراغ لگانا ہے۔پشاور یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی سکالر محمد ولی اللہ نے حاضرین کو بتایا کہ ان کی تحقیقی پریزنٹیشن کا مقصد ماہرین و غیرماہرین، بیوروکریٹس اور سیاست دانوں میں یہ شعور پیدا کرنا ہے کہ آثار قدیمہ اور ورثہ اس ملک کا بنیادی جزو ہیں۔

ڈاکٹر ولی اللہ ضلع بونیر، ضلع ڈیرہ غازی خان اور ضلع نوشہرہ میں آثار قدیمہ کی تلاش کے مختلف منصوبوں پر کام کر چکے ہیں۔آثار قدیمہ کے ایک نوجوان محقق عمران شبیر نے کیچ مکران، بلوچستان میں کئے گئے ایک حالیہ سروے سے حاصل ہونے والے تجربات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے خطے کی جغرافیائی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کیچ مکران جنوبی و وسطی ایشیاکے لئے ایک گزرگاہ کا کردار ادا کرتا رہا ہے اور یہ علاقہ متعدد مہمات اور ہجرتوں کا نظارہ کر چکا ہے۔

اسامہ اے گیلانی نے تاریخی مقامات اور اشیاء کے تحفظ و فروغ اور ان کی دستاویز بندی پر اپنا تحقیقی کام پیش کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی تحقیق کا مقصد ثقافتی ورثہ کی صحت کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے جس کے لئے وہ قدیم ورثہ کے مقامات کے تھری ڈی نقشے اور ’’ورچوئل رئیلٹی‘‘ کا استعمال کرتے ہوئے فروغ سیاحت کے لئے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تھری ڈی نقشوں کی ٹیکنالوجی اور ورچوئل رئیلٹی کو آپس میں ملا کر استعمال کرتے ہوئے لوگ دنیا میں کسی بھی جگہ بیٹھ کر کسی بھی مقام کی ورچوئل سیر کر سکتے ہیں۔

دیگر ممتازمحققین اور پینل ارکان نے قانونی اور ریگولیٹری امور میں محققین کی ناکافی مہارت پر گفتگو کی جو کھدائیوں پر پیشرفت میںرکاوٹوں کا باعث بن رہی ہے۔ محققین نے قدیم ورثہ کو آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ بنانے پر تجاویز بھی دیں۔ تقریب کے ساتھ ساتھ قومی اور بین الاقومی مندوبین کے لئے ’’والڈ سٹی لاہور‘‘ کے دورے کا اہتمام بھی کیا گیا اور انہیں شہر کے تاریخی پس منظر اور اہمیت پر پریزنٹیشن دی گئی۔

دیگر تاریخی مقامات کے علاوہ مندوبین کو مسجد وزیر خان اور شاہی حمام کی سیر بھی کرائی گئی۔فیسٹول کے دوران شرکاء سچل سٹوڈیو آرکسٹرا، مغل فنک، استاد مبارک علی خان کے علاوہ ’’ہر سکھ‘‘ کے رقص دستے کی پرفارمنسز سے بھی محظوظ ہوئے۔ ’’ہیریٹیج نائو‘‘ کو امریکی سفارتخانہ پاکستان، یورپی یونین، یونیورسٹی آف پنجاب، الحمرا آرٹس کونسل لاہور، لکسس گرینڈ ہوٹل، الائنس فرانسیز لاہور اور اے ایف ڈی کی معاونت حاصل تھی۔ کیوریٹنگ پارٹنرز میں اے ایس ایس آئی ٹی ای جے پاکستان، مورانگو، سماج، سوشل انوویشن لیب اور دی لٹل آرٹ شامل تھے۔

متعلقہ عنوان :