موجودہ دور میں طلبا ء و طا لبات پر پڑھائی کا بیجا پریشر ذہنی امراض کا باعث بن رہاہے،پروفیسر ڈاکٹر آفتاب آصف

اتوار 22 اکتوبر 2017 17:30

لاہور۔22 اکتوبر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 اکتوبر2017ء) موجودہ دور میں طلبا ء و طا لبات پر پڑھائی کا بیجا پریشر ذہنی امراض کا باعث بن رہاہے‘ نمبر کم آنے یا امتحانات میں ناکامی پر بچوں کی اکثریت ڈیپریشن میں مبتلا ہو جاتی ہے،والدین اپنی پسندکے فیصلے بچوں پر مسلط نہ کریں‘ انہیں اپنی دلچسپی کے شعبہ میں جانے دیں‘ کسی بھی پروفیشن کو زندگی اور موت کا مسئلہ نہ بنایا جائے‘ والدین کی ڈانٹ ڈپٹ اور معاشرتی رویئے بھی طلباء و طالبات کی اکثریت پر بری طرح اثر انداز ہو رہے ہیں‘ ان خیالات کا اظہار معروف سائیکاٹرس اور چیئرمین انسٹیٹیوٹ آف سائیکاٹری اینڈ بیحیویئر ل سائنسز کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی و میو ہسپتال پروفیسر ڈاکٹر آفتاب آصف نے اے پی پی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا‘ انہوں نے کہا کہ ماضی کی نسبت موجودہ دور میں بچوں پر پڑھائی کا فضول بوجھ ہے‘ والدین کی اکثریت اپنے بچوں کو ڈاکٹر یا انجینئر بنانا چاہتی ہے‘ مقابلے کے دوڑ میں ایک یا دو نمبروں کی کمی سے پروفیشنل کالج یا یونیورسٹیوں میں داخل نہ ہونے والے طلباء و طالبات شدید ذہنی دبائو کا شکار ہو جاتے ہیں جبکہ اوپر سے والدین کا سخت رویہ اور دوست و احباب کی طنزیہ باتیں انہیں ہمیشہ کیلئے مریض بنادیتی ہیں‘ انہوں نے کہا کہ ہمارے دور میں پرائیویٹ اکیڈمیز کا کوئی رجحان نہ تھے لیکن آج کل اکیڈمیز کی بھرمار ہے‘ بیچارے طلبہ صبح کو کالجز اور شام کو اکیڈمی کا سہارا لیتے ہیں‘ مسلسل پڑھائی سے ان کی صحت بتدریج خراب ہونے لگتی ہے اور امتحانات کا اتنا پریشر لیتے ہیں کہ سنبھل نہیں پاتے‘ انہوں نے کہا کہ زندگی بہت خوبصورت ہے‘ اس میں اعتدال سے کام لیتے ہوئے کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے‘ انہوں نے طلبہ کو تجویز دی کہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ واک اور ورزش کو معمول بنائیں اور نماز باقاعدگی سے اداکریں اور باقی کام اللہ پر چھوڑ دیں‘ انہوں نے کہا کہ طلبہ امتحان میں ناکامی کی صورت میں دلبرداشت ہونے کی بجائے کسی اور شعبہ میں تعلیم جاری رکھیں‘ پروفیسر ڈاکٹر آفتاب آصف نے والدین سے بھی اپیل کی کہ وہ بچوں کی پسند اور نہ پسند کو مدنظر رکھیں اور اپنے شوق بچوں پر مسلط نہ کریں‘ بچے جو پڑھنا چاہتے ہیں وہ پڑھنے دیں‘ انہوں نے کہا کہ بچوں کے پروفیشن کا انتخاب کرتے وقت اسے زندگی اور موت کا مسئلہ نہ بنائیں‘ اس سے نقصان کے علاوہ کچھ حاصل نہیںہوتا اور نہ ہی بچوں کا دوسرے بچوں سے موازنہ کریں‘ اس سے ان کے ذہن پر برا اثر پڑتا ہے‘ انہوں نے کہا کہ ڈیپریشن کی صورت میں تعویز گنڈوں کی بجائے کسی مستند ڈاکٹر سے علاج کروائیں۔

متعلقہ عنوان :