پانامہ پیپرز کیس کے نتیجے میں لفظ اثاثہ کی تعریف وتشریح سے ابہام سامنے آیا ہے، ماہرین کیساتھ مشاورت کے بعد سپریم کورٹ میں ابہام کو دورکرنے کیلئے درخواست دائر کریں گے،دانیال عزیز

عدالت نے اپنے فیصلے میں لفظ ’اثاثہ‘ کی بلیک لاء ڈکشنری سے حاصل جس تعریف کا حوالہ دیا ،ڈکشنری میں ایسی کسی تعریف کا وجود ہی نہیں عدالتی فیصلے سے محمد نواز شریف کا جو نقصان ہونا تھا وہ تو ہوچکا لیکن جب ایک تعریف کا اطلاق ایک فرد کیلئے ہوگا تو اس کا اطلاق دیگر پر بھی لاگو ہوگا، مسلم لیگ (ن )متفق ومتحد ہے، سیاسی بونوں کی پارٹی میں پھوٹ ڈالنے کی خواہشیں کھبی پوری نہیں ہونگی، وفاقی وزیر نجکاری کی پریس کانفرنس

ہفتہ 21 اکتوبر 2017 21:31

پانامہ پیپرز کیس کے نتیجے میں لفظ اثاثہ کی تعریف وتشریح سے ابہام سامنے ..
"اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 اکتوبر2017ء) مسلم لیگ (ن) کے رہنماء و وفاقی وزیر نجکاری دانیال عزیز نے کہاہے کہ پانامہ پیپرز کیس کے نتیجے میں لفظ ’اثاثہ ‘کی تعریف وتشریح سے ابہام سامنے آیا ہے اور لفظ ’اثاثہ‘ کی تعریف اورتشریح کے نتیجے میں اب پوراپاکستان اس کے اثرات کا سامنا کررہاہے۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں لفظ ’اثاثہ‘ کی بلیک لاء ڈکشنری سے حاصل کردہ جس تعریف کا حوالہ دیا ہے ڈکشنری میں ایسی کسی تعریف کا کوئی وجود ہی نہیں، ماہرین کیساتھ مشاورت کے بعد اتفاق رائے سے سپریم کورٹ میں ابہام کو دورکرنے کیلئے درخواست دائر کرینگے،عدالتی فیصلے سے محمد نواز شریف کا جو نقصان ہونا تھا وہ تو ہوچکا ہے لیکن جب ایک تعریف کا اطلاق ایک فرد کیلئے ہوگا تو اس کا اطلاق دیگر پر بھی لاگو ہوگا، مسلم لیگ (ن )متفق ومتحد ہے، سیاسی بونوں کی پارٹی میں پھوٹ ڈالنے کی خواہشیں کھبی پوری نہیں ہونگی۔

(جاری ہے)

ہفتہ کوپریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر دانیال عزیز نے کہاکہ پاکستان مسلم لیگ (ن )آئین اورقانون کی حکمرانی پر یقین رکھنے والی جماعت ہے، پانامہ پیپرز کیس کے نتیجے میں لفظ ’اثاثہ‘ کی تعریف وتشریح سے ایک ابہام سامنے آیا ہے ، سابق وزیراعظم محمد نوازشریف اس فیصلے کا نشانہ بنے ہیں تاہم لفظ ’اثاثہ‘ کی تعریف اورتشریح کے نتیجے میں اب پوراپاکستان اس کے اثرات کا سامنا کررہاہے، انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لفظ ’’اثاثہ‘‘ کی جو تعریف کی ہے ، فیصلے کے مطابق وہ بلیک لاء ڈکشنری سے حاصل کی گئی ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں بلیک لاء ڈکشنری کے تحت جس تعریف کا حوالہ دیا ہے ڈکشنری میں ایسی کسی تعریف کا ذکر کیا گیا نہ ہی اس کا کوئی وجود ہے ، انہوں نے کہا کہ بلیک لاء ڈکشنری کو مختلف بین الاقوامی معاہدوں اوردستاویزات میں استعمال میں لایاجاتاہے، اس کی پہلی جلد1891 ء میں شائع ہوئی تھی، بعدازاں 1910، 1933، 1968اور اس کے بعد مجموعی طور پر اس ڈکشنری کے 10ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں، ان میں کسی بھی ایڈیشن میں لفظ’اثاثہ‘ کی وہ تعریف موجود نہیں جس کا عدالتی فیصلے میں ذکر کیا گیاہے ۔

انہوں نے کہاکہ بلیک لاء ڈکشنری میں لفظ ’اکاونٹس ریسیوایبل ‘ اکائونٹنگ کے اصطلاح میں فرم کیلئے استعمال ہواہے لیکن اگر دونوں الفاظ کو الگ الگ استعمال کیا جائے تو اس کے معانی اورمفہوم تبدیل ہوجاتے ہیں، 28 جولائی کے پیرا نمبر 13 میں لفظ ’اثاثہ‘ کی دوسری تعریف میں صرف لفظ’قابل وصول‘ کو استعمال میں لایا گیا ہے اور ’ایک فرم ‘ کی بجائے ’ایک فرد ‘ کی تعریف استعمال میں لائی گئی ہے حالانکہ فرم اورفرد کیلئے الگ الگ طریقہ کار رائج ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ تعریف بزنس ڈکشنری ڈاٹ کام نامی آن لائن ڈکشنری سے لی گئی ہے، یہ ڈکشنری کسی بھی عالمی ٹریٹی میں استعمال ہوتی ہے نہ ہی یہ کوئی مستند قانونی ڈکشنری ہے۔ انہوں نے کہا کہ بزنس ڈکشنری ڈاٹ کام کی تعریف کے مطابق ’قابل وصول ‘ وہ رقم ہے جو ملازم فرم کوادا کرے گا نہ کہ ملازم فرم سے ، اسلئے اس تعریف کی روء محمد نوازشریف پر ’قابل وصول‘ کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا، وکیل خواجہ حارث نے بھی یہی موقف بارہا عدالت میں دیا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ اقامہ معاملہ کا کسی پٹیشن میں ذکر نہیں تھا تو پھر یہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا حصہ کیسے بن گیا حالانکہ سابق وزیراعظم محمد نوازشریف نے 2013 میں کاغذات نامزدگی داخل کراتے وقت اقامہ سمیت ساری دستاویزات الیکشن کمیشن کے پاس جمع کرائی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کا جو نقصان ہونا تھا وہ تو ہوچکا ہے لیکن جب ایک تعریف کا اطلاق ایک فرد کیلئے ہوگا تو ظاہر ہے کہ اس کا اطلاق دیگر پر بھی لاگو ہوگا، عدالتی فیصلے سے انکم ٹیکس اورمعیشت کے پورے نظام پر اثرات مرتب ہوئے ہیں، اس فیصلے کی روشنی میں 2013 سے لیکر اب تک جتنے ریٹرنز فائل ہوئے ہیں انہیں اب نئے سرے سے فائل کرانا ہوگا،اس کے علاوہ 2013 میں منتخب ہونے والے تمام اراکین کے کاغذات کی دوبارہ سے جانچ پڑتال کرنی ہوگی۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ آئین پاکستان کے مطابق عدالت عظمیٰ پارلیمان کی طرف سے بنائے گئے قوانین کی تشریح کرتی ہے، کسی فیصلے میں قانون کی تشریح بھی قانون کا حصہ بن جاتی ہے ، اب یا تو یہ تسلیم کیا جائے کہ یہ تشریح صرف ایک فرد کیلئے تھی ورنہ اس کا اطلاق سب پر ہوگا اوراس سے ٹیکس اور معیشت کا پورا نظام متاثر ہوجائیگا۔ دانیال عزیز نے کہاکہ اس صورتحال میں ہم ٹیکس بارز، اکاونٹنگ فرمز، میڈیا، پارلیمان، صوبائی قانون ساز اداروں اورایوان ہائے صنعت وتجارت کے ساتھ مشاورت کررہے ہیں اور اتفاق رائے سے عدالت عظمیٰ میں سپریم کورٹ میں درخواست دائر کریں گے کہ خدا راہ اگر کوئی غلطی ہوگئی ہے تو اس کی سزاء پوری قوم کو نہ دی جائے ، ہم سپریم کورٹ میں پٹیشن لیکر جائیں گے اورلارجر بنچ کے قیام کی استدعا کریں گے اور ان سے درخواست کریں گے کہ فیصلے سے پیداہونے والے ابہام کو دور کیا جائے۔

صحافیوں کے سوالوں کاجواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن )متفق ومتحد ہے، پارٹی میں پھوٹ ڈالنے کی سیاسی بونوں کی خواہشیں کھبی پوری نہیں ہونگی۔ انہوں نے کہاکہ رواں ماہ کے آغاز پر مسلم لیگ (ن) کی جنرل کونسل کے اجلاس میں پارٹی نے اتفاق رائے سے محمد نوازشریف کو اپنا قائد منتخب کیا تھا، اس اجلاس سے شہباز شریف نے بھی خطاب کیا تھا اورانہوں نے پارٹی قائد پر اپنے مکمل اعتماد کا اظہارکیا تھا۔