جب لیڈر خود کرپٹ ہو تو نیچے کوئی بھی صاف نہیں ہوسکتا ،ملکی وسائل پر قابض نااہل حکمران امیر سے امیر تر ہوتے چلے گئے اور عام آدمی غربت میں دھنستا چلا گیا،،نواز شریف پوچھتے ہیں اُنہیں کیوں نکالا گیا ،وہ جب جیل میں جائیں گے تو سب سمجھ میں آجائے گا کیوں نکالا گیا، سابق نااہل وزیراعظم اور اُن کے ہمنوااداروں کو بد نام کرنے میں مصروف ہیں

انہوںنے پاک فوج کو بد نام کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ، خیبرپختونخو امیں پیپلز پارٹی ، اے این پی ، جمعیت علمائے اسلام سمیت ہر پارٹی نے حکومت بنائی مگر کسی کے پاس بھی عوامی فلاح کا پروگرام نہیں تھا،اُن کا مقصد صرف اپنے مفادات کا تحفظ تھا ، ہم نے چار سال ہر محکمے پر توجہ دی وایمانداری سے کام کیا ،عوام موجودہ حکومت کے چار سالوں کا ماضی کی حکومتوں سے موازنہ ضرور کریں،واضح فرق نظر آئے گا وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویزخٹک کا زیارت کا کا صاحب نوشہرہ میں جلسہ عام سے خطاب

ہفتہ 21 اکتوبر 2017 19:21

جب لیڈر خود کرپٹ ہو تو نیچے کوئی بھی صاف نہیں ہوسکتا ،ملکی وسائل پر ..
.پشاور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 21 اکتوبر2017ء) وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویزخٹک نے بدعنوان اور ناکارہ نظام کو قومی ترقی میں بنیادی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب لیڈر خود کرپٹ ہو تو نیچے کوئی بھی صاف نہیں ہوسکتا ،قوم کیلئے سوچنے کا مقام ہے کہ وقت کے ساتھ مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے کیوں گئے،ملکی وسائل پر قابض نااہل حکمران امیر سے امیر تر ہوتے چلے گئے اور عام آدمی غربت میں دھنستا چلا گیا،نواز شریف پوچھتے ہیں کہ اُنہیں کیوں نکالا گیا ،وہ جب جیل میں جائیں گے تو سب سمجھ میں آجائے گاکہ کیوں نکالا گیا،سابق نااہل وزیراعظم اور اُن کے ہمنوااداروں کو بد نام کرنے میں مصروف ہیں۔

انہوںنے پاک فوج کو بد نام کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی جس نے پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی حدود کے تحفظ کیلئے لازوال قربانیاں دی ہیں۔

(جاری ہے)

خیبرپختونخو امیں پاکستان پیپلز پارٹی ، اے این پی ، جمعیت علمائے اسلام سمیت ہر پارٹی نے حکومت بنائی مگر کسی کے پاس بھی عوامی فلاح کا پروگرام نہیں تھا،اُن کا مقصد صرف اپنے مفادات کا تحفظ تھا ۔

ہمیں ماضی کے تباہ حال ادارے اور کرپشن سے ڈک صوبہ ملا،ہم نے 80 فیصد وسائل ماضی کے تباہ شدہ سٹرکچر کی بحالی کیلئے خرچ کئے۔چار سال ہر محکمے پر توجہ دی اور پوری ایمانداری سے کام کیا،عوام موجودہ حکومت کے چار سالوں کا ماضی کی حکومتوں سے موازنہ ضرور کریں،واضح فرق نظر آئے گا۔ وہ ہفتہ کو زیارت کا کا صاحب ضلع نوشہرہ میں جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔

صوبائی وزیر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن میاں جمشید الدین کاکا خیل ، ضلع ناظم لیاقت خٹک اورگوہر علی نے بھی جلسے سے خطاب کیاجبکہ اس موقع پر معروف سیاسی و سماجی شخصیات زین العابدین باچا ، تسلیم الدین ، فیاض الدین ،میاں جلال الدین، اظہار الدین، سلیم الدین نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا۔وزیراعلیٰ نے تحریک انصاف کے منشور اور صوبائی حکومت کی ساڑھے چار سالہ کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہوئے واضح کیا کہ انہوںنے صوبے میں عوامی حکمرانی کا قابل عمل اسلوب متعارف کرایا ہے۔

عمران خان کی سوچ اور وژن کے مطابق خیبرپختونخوا کے اداروں کو سیاسی مداخلت سے آزاد کرکے حقیقی تبدیلی سے روشناس کیا ۔عمران خان کی سوچ اوردیگر سیاستدانوں کی سوچ میں بڑا فرق ہے۔عمران خان ملکی وسائل پر کئی دہائیوں سے قابض سیاسی مافیا اور لوٹ مار کی ضد کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ نوجوانوں نے اُن کو سپورٹ کیا۔ ہم نے حکومت میں آکر سیر سپاٹے اور عیاشی کے کلچر کو دفن کیا اور ایک شفاف نظام کی بنیاد ڈالی۔

ہماری پوری توجہ نظام کی اصلاح پر مرکوز رہی ہے۔ہم صوبے کے وسائل کو عوام کی فلاح اور آسانی کیلئے خرچ کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور اس پر عمل بھی کرکے دکھایا ہے۔ وزیراعلیٰ نے واضح کیا کہ انہوںنے گزشتہ ساڑھے چار سالوں میں بیرون ممالک اکا دوکا دورے کئے اوروہ بھی صوبے کے مفاد میں کئے ہیں۔ایماندار قیادت کو آگے لانا وقت کی ضرورت ہے۔اس کے بغیر پاکستان کو مسائل کی دلدل سے نکالنا ممکن نہیں۔

وزیراعلیٰ نے کہاکہ ایم ایم اے نے اسلام کے نام پر ووٹ لئے مگر حکومت میں آکر اسلام کیلئے عملی طور پر کوئی کام نہیں کیا ۔اُنہیں اسلام نہیں بلکہ اسلام آباد میں دلچسپی تھی ۔موجودہ صوبائی حکومت نے اسلامی تعلیمات کے فروغ اور اسلامی اقدار کے احیاء کیلئے نظر آنے والے اقدامات کئے۔ سکولوں میں ترجمعہ کے ساتھ قرآن مجید لازمی قرار دیا۔

نجی سود کے خلاف قانون سازی کی اور متعدد لوگوں کو سود خوروں سے نجات دلائی۔جہیز کے خلاف قانون لارہے ہیںکیونکہ جہیز کی وجہ سے معاشرے کے غریب لوگ ظلم اور ناانصافی کا شکار ہوتے ہیں۔ صوبے کی مساجد میں سولر سسٹم لگا رہے ہیں۔ چار ہزار مزید مساجد میں یہ سسٹم لگایا جارہا ہے۔مساجد میں ائمہ کیلئے سرکاری تنخواہ کا بندوبست کرنے جارہے ہیںتاکہ اُنہیں خیرات سے نجات دلا کر اسلام کی خدمت کا بہتر موقع دیا جا سکے اور معاشرے میں اُن کی عزت نفس کی بحالی ممکن ہو سکے۔

وزیراعلیٰ نے تعلیم کو سب سے بڑا خزانہ قرار دیتے ہوئے کہاکہ صوبے میں دوہرے تعلیمی نظام کی وجہ سے امیر اور غریب کے درمیان خلاء بڑھتا چلا گیااور عوام کا سرکاری سکولوں سے اعتماد اُٹھ چکا تھا۔سرکاری سکولوں میں غیر معیاری نظام تعلیم نے غریب کی بنیاد تباہ کر کے رکھ دی تھی ۔موجودہ صوبائی حکومت کی اصلاحات کی وجہ سے عوام کا سرکاری سکولوں پر اعتماد بحال ہو چکا ہے اب لوگ اپنے بچوں کو پرائیوٹ سکولوں سے واپس سرکاری سکولوں میں داخل کرا رہے ہیں۔

وزیراعلیٰ نے انکشاف کیا کہ وہ ایک نیا قانون لارہے ہیں جس کے تحت اساتذہ کی جس سکول میں تعیناتی ہو گی اُسی میں ترقی پائیں گے اور اُسی سکول سے ریٹائرڈ ہو ں گے تاکہ انہیں نتائج دینے کا پابند بنایا جا سکے۔پرائمری سطح پر انگلش میڈیم کا اجراء کیا جا چکا ہے تاکہ غریب کو بھی امیر کے ساتھ مقابلہ کیلئے تیار کیا جا سکے۔شعبہ صحت میں اصلاحات کا حوالہ دیتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہاکہ بعض مفاد پرست عناصر نے ہماری اصلاحات پر سیاست کی مگر ہم عوام کو معیار ی طبی سہولیات دینے کیلئے پر عزم تھے اور ہم اپنے اس مقصد میں کافی حدتک کامیاب ہیں۔

ہمارا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے۔ ہم صرف غریب کی فلاح کا سوچتے ہیں۔ صوبے کی پوری تاریخ میں کل3 ہزار 500 ڈاکٹرز موجود تھے جبکہ ہم نے صرف چار سالوں میں اس تعداد کو دوگنا کردیا۔ اب 7 ہزار سے زائد ڈاکٹرز موجود ہیں۔ غریب کے علاج معالجہ کیلئے صحت انصاف کارڈ کا اجراء کیا۔ 14 لاکھ کارڈ پچھلے سال تقسیم کئے گئے اور رواں سال مزید 10 لاکھ تقسیم کئے جارہے ہیں۔

پرویز خٹک نے کہاکہ صوبے کی پولیس بھی سیاسی لوگوں کی غلام تھی ۔ہم نے قانون سازی کرکے پولیس کو بااختیار بنایا ۔تھانوں میں غریب کی عزت کو بحال کیا ۔ اب پولیس ایک فورس کے طورپر ڈیلیور کررہی ہے۔جنگلات کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہاکہ ماضی میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی کی گئی تقریباً200 ارب روپے سے زائد کے جنگلات تباہ کئے گئے جس کی وجہ سے سیلاب جیسی آفات کا راستہ ہموار ہوا۔

موجودہ حکومت نے ماحولیاتی خطرات کے پیش نظر چار سالوں میں ایک ارب پودے لگانے کا ہدف پورا کیاجس کو دُنیا بھر میں سراہا گیا۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ گزشتہ حکمرانوں نے وادی پشاور خصوصاً نوشہرہ کو بالکل نظر انداز کیا۔ لوگوں کے جان و املاک سیلاب کی تباہ کاریوں کی نذر ہوتے رہے مگر کسی نے اس کی روک تھام کی ہمت نہیں کی ۔وزیراعلیٰ نے کہاکہ انہوںنے سابقہ دور میں آصف زرداری اور حیدر ہوتی کو اس طرف متوجہ کیا مگر انہوںنے کان نہ دھرے ۔

اُنہیں عوام سے کوئی ہمدردی نہیں۔اب اربوں روپے کی لاگت سے دریائے کابل کے دونوں اطراف میں حفاظتی پشتوں کی تعمیر شروع ہے جس کی تکمیل سے ہمیشہ کیلئے سیلاب سے محفوظ ہو جائے گا۔ اے این پی کو توفیق نہ ہوئی کہ اپنے پانچ سالوں میں قاضی حسین احمد ہسپتال کو مکمل کرلے ۔ موجودہ صوبائی حکومت نے اس ہسپتال کو مکمل کیا اور اس کے علاوہ بھی نوشہرہ میں ٹیکنکل یونیورسٹی ، میڈیکل کالج اور طبی اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ائیر یونیورسٹی بنائی جارہی ہے۔اسی طرح صوبے بھر میں طبی اداروں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے قیام کا سلسلہ شروع ہے۔ہم عوام کو صحت اور تعلیم کی معیاری سہولیات دینے کیلئے عملی اقدامات کر رہے ہیں۔ ہمارے تمام تر اقدامات کا مرکز و محور غریب عوام ہیں۔