پاکستان بھارت کے خطے کے چوکیدار کے طور پر کردار کو مسترد کرتا ہے،

معاشی اور تجارتی طور پر دروازے کھلے ہیں‘ وزیر دفاع ہمیں ڈومور سے زیادہ اپنی دفاعی صلاحیت ،معاشی نمو کو قائم رکھنا ہے،پاک افغان سرحد پر باڑ لگا رہے ہیں پاکستان کی مدد کو کوئی نہیں آیا سی پیک پر امریکہ کو خطرے کی گھنٹیاں بجتی محسوس ہو رہی ہیں، سی پیک پر امریکی وزیر دفاع کا بیان بھی مسترد کرتے ہیں‘ انجینئر خرم دستگیر

ہفتہ 21 اکتوبر 2017 12:28

پاکستان بھارت کے خطے کے چوکیدار کے طور پر کردار کو مسترد کرتا ہے،
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 اکتوبر2017ء) وفاقی وزیر فاع انجینئر خرم دستگیر نے واضح کہا ہے کہ پاکستان خطے میں بھارت کے سکیورٹی کے کردار کو تسلیم نہیں کرے گا،پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کے ذریعے کئی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ایک انٹر ویو میں انہوںنے کہا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری ملک کے پسماندہ علاقوں کے بیروزگار نوجوانوں کیلئے ملازمتوں کے وسیع مواقع فراہم کرے گی۔

اقتصادی راہداری منصوبے دور دراز علاقوں کے لوگوں کیلئے خوشحالی لائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن پاکستان کے مفاد میں ہے ۔ انہوں نے اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی کے بیان کے حوالے سے کہا کہ ہماری نظر میں بھارت کا خطے میں صرف معاشی پارٹنر کے طور پر کردار ہوسکتا ہے، پاکستان خطے میں بھارت کے سکیورٹی کردار کو یکسر مسترد کرتا ہے، بھارت کے جنگی عزائم میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے، ایک طرف وہ ہماری مشرقی سرحد پر مسلسل اشتعال انگیزی کر رہا ہے تو دوسری جانب وہ پاکستان اور بالخصوص بلوچستان میں دراندازی کے لیے افغان سرزمین کو استعمال کر رہا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ پاکستان، بھارت کے خطے کے چوکیدار کے طور پر کردار کو مسترد کرتا ہے، تاہم معاشی اور تجارتی طور پر ہمارے دروازے بھارت کے لیے کھلے ہیں۔خرم دستگیر نے کہا کہ بھارت اور امریکہ کے درمیان پچھلے 17 سال سے قربتیں بڑھ رہی ہیں اور امریکہ بھارت کے ذریعے چین پر دبائو رکھنا چاہتا ہے، سی پیک پر امریکہ کو خطرے کی گھنٹیاں بجتی محسوس ہو رہی ہیں، سی پیک پر امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کا بیان بھی مسترد کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم امریکہ کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ پاکستان کو بھارت یا افغانستان کی عینک سے نہ دیکھے، یہ 2009 والا پاکستان نہیں ہے، یہ ضرب عضب اور ردالفساد کے بعد والا پاکستان ہے جس میں آرمی پبلک اسکول پشاور کے واقعے کے بعد پورا قومی بیانیہ تبدیل ہوا کہ ہمیں ملک سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا ہے جس کے لیے ہم نے پہلے بھی بہت قربانیاں دیں اور اب بھی دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ڈومور سے زیادہ اپنی دفاعی صلاحیت اور معاشی نمو کو قائم رکھنا ہے، لیکن ہمارا اس حد تک ڈومور کا مطالبہ بنتا ہے کہ ہم جو پاک افغان سرحد پر باڑ لگا رہے ہیں اس کے لیے پاکستان کی مدد کو کوئی نہیں آیا، تو دنیا کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ جو چاہتے ہیں ہم وہ خود اپنے وسائل سے کر رہے ہیں، ہمارا امریکہ سے امداد کا مطالبہ نہیں ہم امریکہ سے افغانستان میں ذمہ داری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

گھر کی صفائی سے متعلق وزیر خارجہ اور وزیر داخلہ کے بیانات سے متعلق وزیر دفاع نے کہا کہ گھر کی صفائی سے متعلق خواجہ آصف اور احسن اقبال کے بیانات کو غلط سمجھا گیا، ہمیں اپنے گھر کی صفائی کرنی ہے، پاکستان مکمل طور پر صاف نہیں ہوا لیکن پاکستان میں اب کسی دہشت گرد تنظیم کی کوئی محفوظ پناہ گاہ نہیں، پاکستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں کی ہورہی، ہم نے دہشت گردی سے لڑ لیا اب انتہا پسندی اور تشدد سے لڑنا ہے۔

جنوبی ایشیا اور افغانستان کے حوالے سے امریکہ کی نئی پالیسی سے متعلق خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی حقائق کے برعکس ہے، اس وقت افغانستان کے 40 فیصد علاقے میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں، انٹیلی جنس شیئرنگ کی بنیاد پر غیر ملکی خاندان کو پاکستان سے بازیاب کرائے جانے کی خوشی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ آپریشن سرحد کے اس پار کیوں نہیں ہوا، طالبان پر پاکستان کا اثر پہلے سے بہت کم ہے اور خطے کے چند دیگر ممالک اپنے مفادات کی خاطر ان کی حمایت کر رہے ہیں۔